دو تین روز قبل اک نجی ٹی وی چینل پر میں اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اتفاقاً اکٹھے ہو گئے۔ میزبان کی گفتگو کا اصل عنوان تو کراچی اور اس کے حالات تھے لیکن گفتگو گھومتے گھامتے پروٹوکول کلچر سے ہو کر ان تجاوزات تک جا نکلی جن کا ارتکاب ہمارے حکمران کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سکیورٹی کے نام پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا اور شہریوں کے رستے روکنا عوا م کوگالی دینے کے مترادف ہے۔ ایک طرف یہ منافق حکمران ٹولہ خلفائے راشدین کا ذکر کرتے نہیں تھکتا لیکن دوسری طرف انہوں نے عوام کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ میں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے گھر میں برادرم حفیظ اللہ نیازی اور عمر فاروق کی موجودگی میں عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ عمران خان عملاً میدان میں اترے اور ایسی بدمعاشیوں کے خلاف پرامن مزاحمت کرے تو میں ہی اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوں گا بلکہ پورا پاکستان عمران کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ میری اس بات پر ٹی وی پروگرام کے میزبان نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ بھی ساتھ ہو گا۔ اس پروگرام کے ٹیلی کاسٹ ہونے سے اب تک بے شمار لوگ اس سلسلہ میں پر جوش رابطہ کر چکے ہیں، اسی سلسلہ میں موصول ہونے والا یہ خط دیکھئے باقی گفتگو بعد میں…
محترم حسن نثار صاحب، السلام علیکم
گزشتہ روز ایک نجی چینل پر قائد تحریک انصاف عمران خان اور پروگرام کے میزبان کے ساتھ بحث کے دوران آپ نے جس بے باکانہ انداز میں عوامی احساسات کی ترجمانی کی اس پر دل سے آپ کی درازیٴ عمر کے لئے دعائیں نکلیں۔ یہ بلا شبہ ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ جن رہنماؤں کا مسند اقتدار تک پہنچنے کا راستہ عوام کے جان و مال کی قربانی کے باعث ہموار ہوا ان حکمرانوں نے اپنی ذاتی حفاظت اور پروٹوکول کے نام پر عوام کے راستے بند کر دیئے ہیں۔ اب خواہ معصوم بچوں نے سکول جانا ہو، غریب ملازمین نے اپنے دفتر میں حاضری دینا ہو، دیہاڑی دار مزدروں نے اپنے کام پر پہنچناہو، کسی زچہ کو وضع حمل کے لئے ہسپتال جانا ہو، یا کسی جان بلب مریض کی ایمبولینس میں آخری سانسیں چل رہی ہوں اگر بد قسمتی سے ان کا گزر کسی ایسے راستے سے ہو جائے جہاں سے ان کے دلعزیز رہنما کا بیسیوں گاڑیوں پر مشتمل قافلہ گزرنے والا ہو تو گھنٹوں انتظار ان کی قسمت میں لکھ کر ان کو ان کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے جیسا کہ میں نے ایک قطعہ میں لکھا ہے:
مل گئی جو آزادی، دیس بن گیا مسکن
ہر گلی محلے میں ناچتی بلاؤں کا
چیونٹیوں کے سب لشکر کان کھول کر سن لیں
راستوں پہ قبضہ ہے صرف رہنماؤں کا
دوسری جانب ان حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری سے غافل ہو کر حکومت کے تمام تر وسائل اپنی ذاتی حفاظت میں جھونک دیئے ہیں حالانکہ جیسا کہ قرآن پاک کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ موت تو بلند قلعوں کے اندر رہنے سے بھی نہیں ٹلتی۔ شاید یہ اپنی بد اعمالیوں کے باعث پیدا ہونے والے خوف کا شکار ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری محافظ رکھنے کے باوجود اپنے محلات کے ارد گرد کے سرکاری راستوں کو بھی بند کرنا ضروری خیال کرتے ہیں آخر وہ کون سا قانون ہے جو ان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عوام کی ملکیت پر تنہا قابض ہو کر بیٹھ جائیں؟
میں آپ کے عمران خان کو دیئے جانے والے مشورے سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ان قانون شکن حکمرانوں کو علی الاعلان بتا دیا جائے کہ اس ملک کی عوام اپنی مزید ہتک گورارا نہیں کر سکتی یہ راستے سب کی مشترکہ ملکیت ہیں سب کو ایک دوسرے کے حق کا یکساں احترام کرنا ہو گا خواہ وہ کوئی حکمران ہو یا رعایا کا کوئی فرد۔
محترم عمران خان کو آپ کے مشورے نے بظاہر اس خدشے میں مبتلا کر دیا ہے کہ شاید آپ انہیں پرامن سیاست کے راستے سے ہٹنے کی نصیحت کر رہے ہیں جبکہ میرے ناقص فہم کے مطابق آپ کا تجویز کردہ راستہ سراسر پرامن اور جمہوری طریقہ کار ہے آپ کسی معصوم کی جان لینے کی بات نہیں کر رہے بلکہ اپنے حقوق کے لئے غیر مسلح رہ کر آواز بلند کرنے اور اپنی جان دینے کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اگر محترم عمران خان اور ان کی جماعت نے آپ کے مشورے پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کیا تو نہ صرف ہزاروں لاکھوں نوجوان ان کی پکار پر لبیک کہیں گے بلکہ اس ملک سے وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کا سہرا بھی ان کے سر بندھ سکے گا۔
مخلص انجینئر یاسر صدیقی
شاہد عشرت (ماہر نفسیات)
ڈاکٹر محمد سرور احسان
ظفر اقبال منہاس
قارئین!
کیا آپ کے جذبات ، خیالات اور احساسات اس خط سے کچھ مختلف ہیں؟ اگر ہیں اور خود عمران خان کا فیڈبیک بھی کچھ ایسا ہی ہے تو اسے غیر پیداواری دھرنے ورنے چھوڑ کر بامعنی اقدامات کی طرف آنا ہو گا جس سے عوام بھی نہ صرف موبلائز، موڈی ویٹ اور ایجوکیٹ ہوں گے بلکہ ان کے اعتماد میں بھی بلا کا اضافہ ہوگا۔ چند ہزار لوگ ہم جیسے دیوانوں سمیت حکمرانوں سے قبضے چھڑانے اور بند راستے واپس لینے نکل آئیں تو یہ 48گھنٹوں کی مار نہیں اور اپنے بنیادی حقوق کا یہ شعور اور اس کا پرامن مظاہرہ خون لینے نہیں دینے کے لئے ہو گا اور اس کی علامتی حیثیت بھی بے پناہ ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ عوام عمران کی قیادت میں اپنے غیور اور باشعور ہونے کا ثبوت دیں گے اور ان کی یہ بظاہر چھوٹی سی فتح… چھوٹی سی کامیابی ان پر بڑی فتوحات اور بڑی کامیابیوں کے لاتعداد دروازے کھول دے گی۔ عمران خان کو روایتی اور زبانی کلامی اپوزیشن کے بے ثمر رول سے باہر نکل کر روایت شکنی اور روایت سازی کی بنیاد رکھنی ہو گی۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو اور تو اور عوام کو عزت و احترام بھی نہیں دے سکتے۔ عمران خان اگر یہ مثبت، تعمیری اورتخلیقی قسم کا احتجاج بھی نہیں کرتا تو افسوس صد افسوس کہ اسے بھی ”سٹیٹس کو“ کا محافظ ہی سمجھا جائے گا اور میں قسماً عرض کرتا ہوں کہ مجھ ملنے والے فیڈ بیک میں اس طرح کے اشارے موجود تھے کہ عمران نے اس موضوع پر کھل کر کچھ کہنے کرنے سے احتراز کیا ہے۔ آخر پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عملی سیاست سے اپنی تمام تر نفرت کے باوجود میں سینکڑوں ساتھیوں سمیت… جی ہاں سینکڑوں ساتھیوں سمیت عمران کے شانہ بشانہ اس کا ساتھ دوں گا۔ عمران کو چاہئے کہ اپنے سیاسی رفقاء کے ساتھ مشورہ کے بعد کوئی احسن فیصلہ کرے۔
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
محترم حسن نثار صاحب، السلام علیکم
گزشتہ روز ایک نجی چینل پر قائد تحریک انصاف عمران خان اور پروگرام کے میزبان کے ساتھ بحث کے دوران آپ نے جس بے باکانہ انداز میں عوامی احساسات کی ترجمانی کی اس پر دل سے آپ کی درازیٴ عمر کے لئے دعائیں نکلیں۔ یہ بلا شبہ ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ جن رہنماؤں کا مسند اقتدار تک پہنچنے کا راستہ عوام کے جان و مال کی قربانی کے باعث ہموار ہوا ان حکمرانوں نے اپنی ذاتی حفاظت اور پروٹوکول کے نام پر عوام کے راستے بند کر دیئے ہیں۔ اب خواہ معصوم بچوں نے سکول جانا ہو، غریب ملازمین نے اپنے دفتر میں حاضری دینا ہو، دیہاڑی دار مزدروں نے اپنے کام پر پہنچناہو، کسی زچہ کو وضع حمل کے لئے ہسپتال جانا ہو، یا کسی جان بلب مریض کی ایمبولینس میں آخری سانسیں چل رہی ہوں اگر بد قسمتی سے ان کا گزر کسی ایسے راستے سے ہو جائے جہاں سے ان کے دلعزیز رہنما کا بیسیوں گاڑیوں پر مشتمل قافلہ گزرنے والا ہو تو گھنٹوں انتظار ان کی قسمت میں لکھ کر ان کو ان کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے جیسا کہ میں نے ایک قطعہ میں لکھا ہے:
مل گئی جو آزادی، دیس بن گیا مسکن
ہر گلی محلے میں ناچتی بلاؤں کا
چیونٹیوں کے سب لشکر کان کھول کر سن لیں
راستوں پہ قبضہ ہے صرف رہنماؤں کا
دوسری جانب ان حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری سے غافل ہو کر حکومت کے تمام تر وسائل اپنی ذاتی حفاظت میں جھونک دیئے ہیں حالانکہ جیسا کہ قرآن پاک کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ موت تو بلند قلعوں کے اندر رہنے سے بھی نہیں ٹلتی۔ شاید یہ اپنی بد اعمالیوں کے باعث پیدا ہونے والے خوف کا شکار ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری محافظ رکھنے کے باوجود اپنے محلات کے ارد گرد کے سرکاری راستوں کو بھی بند کرنا ضروری خیال کرتے ہیں آخر وہ کون سا قانون ہے جو ان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عوام کی ملکیت پر تنہا قابض ہو کر بیٹھ جائیں؟
میں آپ کے عمران خان کو دیئے جانے والے مشورے سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ان قانون شکن حکمرانوں کو علی الاعلان بتا دیا جائے کہ اس ملک کی عوام اپنی مزید ہتک گورارا نہیں کر سکتی یہ راستے سب کی مشترکہ ملکیت ہیں سب کو ایک دوسرے کے حق کا یکساں احترام کرنا ہو گا خواہ وہ کوئی حکمران ہو یا رعایا کا کوئی فرد۔
محترم عمران خان کو آپ کے مشورے نے بظاہر اس خدشے میں مبتلا کر دیا ہے کہ شاید آپ انہیں پرامن سیاست کے راستے سے ہٹنے کی نصیحت کر رہے ہیں جبکہ میرے ناقص فہم کے مطابق آپ کا تجویز کردہ راستہ سراسر پرامن اور جمہوری طریقہ کار ہے آپ کسی معصوم کی جان لینے کی بات نہیں کر رہے بلکہ اپنے حقوق کے لئے غیر مسلح رہ کر آواز بلند کرنے اور اپنی جان دینے کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اگر محترم عمران خان اور ان کی جماعت نے آپ کے مشورے پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کیا تو نہ صرف ہزاروں لاکھوں نوجوان ان کی پکار پر لبیک کہیں گے بلکہ اس ملک سے وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کا سہرا بھی ان کے سر بندھ سکے گا۔
مخلص انجینئر یاسر صدیقی
شاہد عشرت (ماہر نفسیات)
ڈاکٹر محمد سرور احسان
ظفر اقبال منہاس
قارئین!
کیا آپ کے جذبات ، خیالات اور احساسات اس خط سے کچھ مختلف ہیں؟ اگر ہیں اور خود عمران خان کا فیڈبیک بھی کچھ ایسا ہی ہے تو اسے غیر پیداواری دھرنے ورنے چھوڑ کر بامعنی اقدامات کی طرف آنا ہو گا جس سے عوام بھی نہ صرف موبلائز، موڈی ویٹ اور ایجوکیٹ ہوں گے بلکہ ان کے اعتماد میں بھی بلا کا اضافہ ہوگا۔ چند ہزار لوگ ہم جیسے دیوانوں سمیت حکمرانوں سے قبضے چھڑانے اور بند راستے واپس لینے نکل آئیں تو یہ 48گھنٹوں کی مار نہیں اور اپنے بنیادی حقوق کا یہ شعور اور اس کا پرامن مظاہرہ خون لینے نہیں دینے کے لئے ہو گا اور اس کی علامتی حیثیت بھی بے پناہ ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ عوام عمران کی قیادت میں اپنے غیور اور باشعور ہونے کا ثبوت دیں گے اور ان کی یہ بظاہر چھوٹی سی فتح… چھوٹی سی کامیابی ان پر بڑی فتوحات اور بڑی کامیابیوں کے لاتعداد دروازے کھول دے گی۔ عمران خان کو روایتی اور زبانی کلامی اپوزیشن کے بے ثمر رول سے باہر نکل کر روایت شکنی اور روایت سازی کی بنیاد رکھنی ہو گی۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو اور تو اور عوام کو عزت و احترام بھی نہیں دے سکتے۔ عمران خان اگر یہ مثبت، تعمیری اورتخلیقی قسم کا احتجاج بھی نہیں کرتا تو افسوس صد افسوس کہ اسے بھی ”سٹیٹس کو“ کا محافظ ہی سمجھا جائے گا اور میں قسماً عرض کرتا ہوں کہ مجھ ملنے والے فیڈ بیک میں اس طرح کے اشارے موجود تھے کہ عمران نے اس موضوع پر کھل کر کچھ کہنے کرنے سے احتراز کیا ہے۔ آخر پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عملی سیاست سے اپنی تمام تر نفرت کے باوجود میں سینکڑوں ساتھیوں سمیت… جی ہاں سینکڑوں ساتھیوں سمیت عمران کے شانہ بشانہ اس کا ساتھ دوں گا۔ عمران کو چاہئے کہ اپنے سیاسی رفقاء کے ساتھ مشورہ کے بعد کوئی احسن فیصلہ کرے۔
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے