Javed Iqbal

تنہائی اور گہرائی… چوراہا …حسن نثار

ایبٹ آباد آپریشن یا ایبٹ آباد ”سرجری“ کے فوراً بعد جس قسم کا جذباتی ردعمل سامنے آیا، جیسی فضا بننی شروع ہوئی اس نے مجھے پریشان کر دیا۔ اپنے کالموں سے لے کر مختلف ٹی وی چینلز تک میں تسلسل کے ساتھ یہ عرض کرتا رہا کہ ہندوستان کی اولین اور شدید ترین خواہش ہو گی کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک پہنچ جائیں۔ تازہ ترین خبر بلکہ خبریں یہ ہیں کہ ایک طرف تو بھارت نے پاکستانی سرحد پر راجستھان میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ ان مشقوں میں 20 ہزار سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں، جدید ہتھیاروں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ ان جنگی مشقوں کو ”وجے بھوا” کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ”فاتح بنو“۔ انڈین آرمی کے ترجمان کے مطابق یہ مشقیں چھ روز تک جاری رہیں گی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر جنگی مشقوں کا ڈول اس وقت ڈالا گیا ہے جب پاکستان کو ایبٹ آباد میں اسامہ کی ہلاکت والے معاملہ پر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ راجستھان کے اس صحرا میں گزشتہ 6 سال کے دوران بھارتی فوج 10 مشقیں کر چکی ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا یہ تبصرہ بھی اس خبر کے ساتھ ہی شائع ہوا کہ … ”جائزہ لے رہے ہیں“
دوسری خبر یہ ہے کہ اوباما اور منموہن سنگھ میں ”گلوبل پارٹنر شپ“ کے قیام پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ دونوں نے دفاع سمیت کئی دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کا نہ صرف عزم کیا بلکہ اسامہ کے خلاف آپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں ان دونوں خبروں پر تبصرہ کرنا ضروری نہیں۔ ذہین قارئین اپنے طور پر صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ ایسی گھمبیر صورتحال میں ہماری حکومت اور اپوزیشن کیا کر رہی ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر … دونوں کی تقریریں نہلے پہ دہلہ کے سوا کچھ نہ تھیں۔ دونوں کی تقریروں میں ”کارروائی“ … ”پوائنٹ سکورنگ“ … سچویشن سے ”سیاسی مائیلیج“ لینے کی بھونڈی کوشش کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”زنجیریں“ تو یہ توڑ نہیں سکتے… المیہ یہ کہ ڈھنگ کی تقریریں کرنے سے بھی قاصر کہ ”مغز“ نام کی کوئی چیز کسی ایک کی تقریر میں بھی موجود نہیں۔ وزیراعظم کی تقریر کاک ٹیل… بارہ مصالحوں کی چاٹ اور متنجن ٹائپ کوئی شے تھی جس میں مخدوم صاحب نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔ تقریر کے دوران مجھے ہر دلعزیز مزاح نگار شفیق الرحمن یاد آئے جن کا ایک کردار شکار کی غرض سے مرغابی کو نشانہ بناتا ہے۔ دوچار بار نشانہ چوکنے پر مرغابی خود اڑ کر ”شکاری“ کے پاس آتی ہے اور اپنے پروں میں سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہتی ہے …
”برخوردار! بازار سے کچھ لے کر کھا لینا“
جس زمانے میں شفیق الرحمن نے یہ لکھا اس وقت پانچ روپے میں پیٹ بھر جایا کرتا تھا۔ یہ واقعہ آج کل ہوتا تو مرغابی کو کم از کم پانچ سو روپے پیش کرنے پڑتے۔
دوسری طرف اپوزیشن لیڈر کی تقریر پھوکی اور کھوکھلی۔ کوئی امریکن بے مغز قسم کی بودی سی بات سنے تو پوچھتا ہے “WHERE IS THE BEEF?” یعنی تمہارا برگر دیکھنے میں تو بہت اچھا ہے لیکن اس میں ”بیف“ کہاں ہے؟ چوہدری نثار سے بھی یہی کچھ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں یہ لہجہ، یہ تیور یہ باتیں زیب دیتی ہیں؟
ادھر وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے نجانے کس خوشی یا کارنامے پر یونیفیکیشن گروپ کے ”اعزاز“ میں ظہرانہ دے رکھا تھا۔ اس خبر کا دلچسپ بلکہ لذیذ پہلو یہ ہے کہ اس باضمیر گروپ کے 46 میں سے صرف 13 ارکان نے اس ظہرانے میں شرکت فرمائی۔ ق لیگ کی بھی سن لیں کہ ریاض پیرزادہ نے وزارت صحت کا قلمدان سنبھالنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ خدا معلوم ان کی ”صحت“ کے لئے کون سا ”قلمندان“ مقوی ہو گا اور غور فرمایئے کس سٹیج پر جاوید ہاشمی بھی گہری نیند سے جاگ کر قوم کو خوشخبری سنا رہے ہیں کہ … ”جلد ہی اپنا استعفیٰ پارٹی قیادت کے حوالے کر دوں گا، ن لیگ تنہائی کی طرف جا رہی ہے“ اک ن لیگ ہی کیا… پورا ملک ہی تنہائی کی طرف گامزن ہے اور ”سٹرٹیجک گہرائی“ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ ”گہرائی“ ہمیں اور کتنی گہرائی تک لے جائے گی؟ وہاں پہنچیں گے تو اندازہ ہو گا اور پھر ہی ٹھنڈ پڑے گی
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.