Javed Iqbal
آج پھر بارہ مصالحوں کی چاٹ، متنجن یا کاک ٹیل… جوچاہے سمجھ لیں کیونکہ کسی ایک موضوع کولسی کی طرح لمبا کرتے چلے جانا میرے بس میں نہیں۔ سو سب سے پہلے چودھری نثارکی طرف چلتے ہیں۔ بہت زیادہ باتیں کرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ کبھی کبھار کوئی کام کی بات بھی منہ سے نکل جاتی ہے۔ قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے کہا ہے کہ… ”صدر نے خوشامدیوں میں قومی اعزازات بانٹ کر قوم کے ساتھ مذاق کیا ہے“ سچ تو یہ ہے کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی روز ِ اول سے قوم کے ساتھ مذاق ہی کر رہی ہے اور یہ پہلی حکومت نہیں جس نے قومی اعزازات کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا ہے جیسا وہ قوم کے ساتھ کر رہی ہے۔اگر قوم کے ساتھ مسلسل ظلم ہو رہا ہے تو قومی اعزازات کے ساتھ انصاف کیسے ممکن ہے؟ لیکن یہ مذاق بہت ہی سنجیدہ بلکہ المناک ہے کیونکہ اس طرح ”اعزازات“بے توقیر، بے عزت اور فضول لگنے لگتے ہیں، ان کی حیثیت فقط دھات کے ٹکڑوں کے علاوہ اورکچھ نہیں رہ جاتی۔ کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ جونہی کوئی اپنے ”اعزاز“ کا حوالہ دے… سننے والے سمجھ جائیں کہ یہ کس کا چمچہ یاکڑچھا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اعزازات حاصل کرنے والوں میں کچھ نام ایسے بھی ہیں جو کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں سنے جبکہ ایسے لوگوں کوعوام میں بے پناہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
ہمارا کلچر اور ”وے آف لائف“ بن چکاہے کسی بھی اور شعبہ میں میرٹ کہاں جو قومی اعزازات کی تقسیم میں دکھائی دے۔ یوں بھی جوایسے اعزازات کے صحیح معنوں میں حقدارہوتے ہیں، ایسے ڈھکوسلوں سے بے نیازہوتے ہیں اور ان کے لئے عوام سے ملنے والی محبت، عزت اورعقیدت ہی بہت ہوتی ہے۔
نوازشریف کا بھی جواب نہیں۔ فرماتے ہیں کہ… ”مفاد پرستی کے اتحادوں سے سیاسی تنہائی بہتر ہے“ بہتر ہوگا کہ میاں نواز شریف اپنی حکمت عملی کی ناکامی پر اس قسم کے ”مکالموں“ کا پردہ ڈالنے کی بجائے اس ”تنہائی“ پر از سر غور فرمائیں ورنہ آنے والے دنوں میں یہ مزید خطرناک ثابت ہوگی۔ تنہائی صرف صوفیا اور سائنس دانوں کو ہی سوٹ کرتی ہے۔ سیاستدان کے لئے ”تنہائی“ بوسہ ٴ مرگ (Kiss of death) سے کم نہیں ہوتی اور یوں بھی ماضی میں میاں صاحب جن جگاڑ نما اتحادوں کاحصہ بلکہ سرخیل رہے ہیں، کیا وہ سب کے سب مفاد پرستی، اقتدار پرستی اور اسٹیبلشمنٹ کی چاکری اورتابعداری کی بدترین مثال نہیں تھے؟
ہائے اس زود پشیمان کا پشیماں ہونا
لیکن خیر ہے ”دیرآید درست آید“ یایوں کہہ لیجئے کہ صبح کا بھولا اگررات گئے گھر آ جائے تو اسے بھولانہیں کہتے بلکہ ہلکی پھلکی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اس کیلئے دروزہ کھول دیا کرتے ہیں لیکن میرا مشورہ بہرحال اپنی جگہ کہ اپنی اس سیاسی تنہائی کو خوامخواہ ”گلوری فائی“ کرنے کی بجائے کوئی نئی سٹریٹجی بنائیں ورنہ یاد رکھیں کہ اصلی اور جنگلی شیر کو بھی ”ہانکا“ کی صورت میں سب سے پہلے ”تنہائی“ کا شکار ہی کیا جاتا ہے،آپ توصرف سیاسی ا ورشہری شیر ہیں
اورشہروں میں بالخصوص عمران خان کا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہاہے۔
اور کا توعلم نہیں لیکن اس فراڈجمہوریت کے خلاف لکھتے لکھتے میری تو انگلیاں گھس گئیں، بولتے بولتے زبان سوکھ گئی ا ور میں بھی میاں نواز جیسی ”تنہائی“ کاشکار تھا کہ اچانک اک توانا آواز نے میری تنہائی کا طلسم توڑ دیا۔ شاہین صہبائی نے 16اگست جنگ کے صفحہ اول پر جو لکھا، صرف اس کی سرخی کاحوالہ دوں گا۔
”پاکستان میں الیکشن! اس فراڈ کو اب بند ہونا چاہئے“
اول تو آپ نے اس کی تفصیل پڑھ لی ہوگی جس نے نہیں پڑھی اس سے میری گزارش ہے کہ دودن پرانا جنگ پھر سے دیکھئے اور جانئے کہ جمہوریت کے نام پر جمہور کے ساتھ اس جمہوریہ پاکستان میں کیا فراڈ ہورہا ہے۔پاکستان کیا پاکستانی عوام کی بوٹیاں نوچی جارہی ہیں، ان کی بھربھری بیمار ہڈیوں میں سے گودا نکال کر نہاریوں میں استعمال ہورہا ہے کہ آدم خوروں کے نزدیک انسانی گوشت لذیذ ترین ہے اور ایسے بھیانک حالات میں اک خبر کی صرف یہ دو سرخیاں ملاحظہ فرمایئے۔
”گیس چوری میں بااثر شخصیت ملوث، سیکرٹری پٹرولیم کا نام بتانے سے انکار“
”سی این جی سٹیشن چلانے والی اس شخصیت نے پانچ سال سے بل نہیں دیا“ پی اے سی کے اجلاس میں انکشاف اور اب آخر پرایک تھپڑ اپنے اجتماعی چہرے پر بھی کہ واقعی جیسی قوم ہوویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔
”رمضان بازاروں میں 4300 منافع خوروں کو ایک کروڑ 21لاکھ روپے جرمانہ“
یہ تو وہ 43سوہیں جو پکڑے گئے… پورے پاکستان میں کتنے ہوں گے؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، کون کس کو کس پر کتنا دوش دے؟
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.