Javed Iqbal
 
 
جولائی 2010 ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے تحت پنجاب کے 1200 پی سی ایس افسروں نے ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی جس نے 17جولائی کو طویل مذاکرات کے بعدان کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے اور ان پر عملدرآمد کے لئے آخری تاریخ 31جولائی 2010 مقرر کی گئی لیکن حیرت انگیز بات یہ کہ آج تک صرف ایک مطالبہ پر عملدرآمد ہوسکا۔ اس کمیٹی کے فیصلوں کا بھیDMG نے وہی حشر کیا جو1986 میں میاں نواز شریف کی بنائی ہوئی ایم پی ایز کی کمیٹی کی سفارشات کا کیا تھا۔ میاں صاحب کی بنائی ہوئی کمیٹی میں سردار ذوالفقار کھوسہ، شاہ محمود قریشی اور رانا پھول محمد مرحوم شامل تھے۔ اس کمیٹی نے PCS, DMG ، محکمہ قانون پنجاب، PSSاور دیگر فریقین کو سننے کے بعد 149صفحات پر مشتمل متفقہ رپورٹ اسمبلی میں پیش کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ…
(1) DMG افسران کی صوبہ پنجاب میں تعیناتی سرے سے ہی غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔
(2) PCSافسران کے ساتھ ان کے اپنے ہی صوبہ میں سخت زیادتی ہو رہی ہے لہٰذا اس کا فوری ازالہ ہونا چاہئے۔
اس رپورٹ کو پنجاب اسمبلی نے طویل بحث کے بعد متفقہ قرار داد کے ذریعے منظورکرلیا مگر DMG نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یوں پوری اسمبلی کی متفقہ رپورٹ / قرارداد 24سال کے بعد بھی کسی سردخانہ میں سہمی پڑی ہے۔
کیا یہ پوری اسمبلی کی توہین نہیں؟
کیا اس سے ہر ممبر کا استحقاق مجرو ح نہیں ہوا؟
دھونس اور دھاندلی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ان کی تو صوبوں میں تعیناتی ہی غیرآئینی ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کے ملازمین ہیں۔
تصویر کادوسرا رخ اس عرشی مخلوق کی کارکردگی ہے جس نے معاملات کو بد سے بدتر کر رکھا ہے۔ ہرشعبہ اور
میدان مکمل تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سرکاری سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی حالت زار عوام کے سامنے ہے۔ پٹوا ر کلچر سے لے کر تھانیدار کلچر تک نے عوام کی زندگیاں جہنم بنا رکھی ہیں۔ جعلی مہنگائی سے لے کر اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت اور بدامنی علیحدہ ضربیں کھا رہی ہے۔ ہر شعبہ میں ابتری اور پستی عروج پر ہے تو یہ کس بنیاد اور برتے پر خود کو”برتر“ سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں؟ یہی نہیں بلکہ انہوں نے مختلف پراجیکٹس میں بھی اپنے ہی لوگوں کو پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا رکھاہے اور وہ اپنی تنخواہ اور سہولتوں کے علاوہ لاکھوں روپے اضافی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ مثالیں دینے لگوں تو پورا کالم اسی کی بھینٹ چڑھ جائے جبکہ دوسری طرف کچھ سیٹوں کی طرف جاتے ہی نہیں مثلاً (HRM) ، DO، DO(C)، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن وغیرہ کیونکہ ان کے نزدیک یہ ”کم پرکشش“ ہیں۔یہ کہانی بھی کم دلچسپ نہیں کہ اونٹ خیمہ میں گھسا کیسے؟ 1954 میں انہوں نے صوبوں سے ایک غیرقانونی معاہدہ کیا اور پنجاب میں 28افسران کی اجازت حاصل کرلی۔ 1973میں خود ہی اپنی تعداد 115 تک بڑھا لی۔ 1993میں انہوں نے امپورٹڈ وزیراعظم معین قریشی سے ایک فارمولا منظورکروالیا اور صوبوں کی اہم پوسٹوں پر قابض ہوگئے۔ کمال یہ کہ اس غیرقانونی فارمولے پر باقی صوبوں میں عمل ہو رہاہے مگر پنجاب میں اس پر بھی عمل نہیں ہورہا۔ واردات ملاحظہ فرمایئے کہ معین قریشی کا 93 ء والا غیرقانونی فارمولا بھی آج تک NOTIFY نہیں کیاگیا۔ یہ فارمولا محض MINUTES کی صورت میں ہے اور اس کے ہر صفحہ پر”خفیہ“ لکھ کر غائب کر دیا گیا۔18ویں ترمیم کے بعد DMGافسران کو صوبہ پنجاب سے مرکز میں بھیجا جانا چاہئے تھا جہاں سے اپنی مرضی کے ساتھ امتحان دے کر وفاقی سروس جوائن کی تھی اور بالفرض اگر پنجاب میں ان کی تعیناتی لازمی گرادنی جائے تو پھر فارمولا یہ بنتا ہے کہ اس وقت یہ گریڈ 17 میں 5 فیصد ہیں تو انہیں گریڈ 18 میں 4فیصد، گریڈ 19میں 3فیصد ، گریڈ 20میں دو فیصد اور گریڈ 21میں ایک فیصد کوٹہ دیاجائے۔ واضح ہو کہ معین قریشی فارمولا بلوچستان حکومت نے اکتوبر 2010 میں اس لئے ختم کردیا کہ یہ غیرقانونی تھا۔ (جاری ہے)
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.