Javed Iqbal
میرے ذہین قارئین میری اس حرکت سے واقف ہی نہیں بلکہ اسے پسند بھی کرتے ہیں کہ میں آج بھی لائل پور کو لائل پور ہی لکھتا بولتا ہوں اور میں نے اس شہر کے نام کے ساتھ کی گئی ٹمپرنگ کو آج تک قبول نہیں کیا۔ سچ یہ ہے کہ فیصل آباد نہ میرے منہ پہ چڑھتا ہے نہ روح پہ پڑتا ہے نہ میرے قلم سے نکلتا ہے ۔ اتفاق سے میں نے ٹین ایج کے شروع میں کسی سے سن لیا تھا کہ سر جیمز لائل نے صدیوں پرانے اس ویرانے کو اک جیتا جاگتا شہر بنانے کیلئے کتنی شدید محبت، کمٹمنٹ اور محنت سے دن رات ایک کر دیئے تھے وہ آندھیوں ، جھکڑوں، واورولوں اور جلتی دوپہروں میں گھنٹوں گھوڑے پرسوار اس شہر کو تعمیر کرتا اور سنوارتا رہا۔یہی سر جیمز لائل بعدازاں پنجاب یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے ۔
پچھلے دنوں اک انتہائی سینئر ریٹائرڈ بیورو کریٹ اے کے خالد صاحب کی آپ بیتی نظر سے گزری، خالد صاحب نے سوانح حیات کے علاوہ اک اور شہکار کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ہے ۔”THE AGRARIAN HISTORY OF PAKISTAN“عنوان سے ہی اندازہ لگا لیں کہ کس بلا کی چیز ہو گی لیکن فی الحال میں آپ کو ان کی سوانح سے ایک ڈیڑھ صفحہ پڑھانا چاہتا ہوں جب 1966ء میں آپ بطور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لائل پور تعینات ہوئے ۔ لکھتے ہیں ۔
”میں فروری 1966ء میں چکوال سے رخصت ہو کر لائل پور پہنچا تو اس کشت کاری اور صنعت و حرفت کے مخلوط شہر نے اپنے بانی سرجیمزلائل کے نام کا جھومر بڑے نازو نخوت سے ماتھے پر سجا رکھا تھا ۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ جھومر اس کے ماتھے سے نوچ کر کسی اور کی پیشانی پر سجا دیا جائے گا۔ کون نہیں جانتا کہ لائل پور کی ساندل بار کو کریروں، خاردار ببولوں، رینگتی سوسماروں اور زہرناک سانپوں سے کس نے صاف کیا۔ کس نے پنجاب کی سب سے بڑی نہر لوئر چناب کا اجرا کرکے جلتی بلتی بار کے چپے چپے کی پیاس بجھائی۔ کس نے لاکھوں فاقہ کش بے زمین قلبہ رانوں کی آباد کاری کرکے ان کو 1892ء سے 1901ء کے طویل عرصہ پر محیط بدترین قحط کی سختیوں سے نجات دلائی۔ کس نے ہاریوں کی زرعی اجناس کو منڈی تک پہنچانے کیلئے گھنٹہ گھر کے گرد گھومتے آٹھ بازاروں کے مثالی شہر کی بنیاد رکھی اور کس نے دنیا کو ایک ایسے زرعی نظام سے متعارف کرایا جس کا نمونہ خطہ ارضی پر پہلے موجود نہ تھا۔ یہ صرف کسانوں کے دوست اور انسانیت کے محسن سرجیمز لائل کا کارنامہ تھا جس کا نام اور کارنامے مدتوں ہمارے لوک گیتوں، ڈھولوں، ماہیوں اور گھر گھر سنائی جانے والی دیومالائی کہانیوں میں گونجتے رہے اور جس کے قصیدے اور واہریں ہماری ” مسدس“ کے مصنف الطاف حسین حالی نے برسر دربار پڑھنے میں فخرومباہات جانا ۔ آج اسی سرجیمز کا نام نامی ہم نے جس بے دردی اور سنگ دلی سے اس کے شہر سے چھین کر ”نام نیکوئے رفتگاں“ ضائع کرنے اور احسان فراموشی کی جو بدترین روایت قائم کی ہے اس کی مثال ”تاریخ کے اوراق میں ڈھونڈنے سے مل نہیں پائے گی۔ لائل پور کی آباد کاری اور ترقی کے سفر میں شریک کہیں کوئی سعودی شاہ دکھائی نہیں دیتا اور لائل پور کو اس کے بانی اور محسن کے نام سے محروم کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہ تھا۔“
بات بہت بنیادی اور سادہ ہے لیکن ہران گھڑ ذہن کی سوچ سے بہت پرے کی۔ ہم تو نواب شاہ کو بھی بے نظیر کے نام سے منسوب کر چکے کہ شہروں کے نام تبدیل کرنا بہت آسان لیکن نئے شہر آباد کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ۔
ہم تاریخ مسخ کرنے کے ماسٹر ہیں اور ہمارا دھیان اس طرف بھی نہیں جاتا کہ تاریخ بہت سفاک اور بے رحم ہوتی ہے اور اس کی لغت میں ”معافی “ نام کی کوئی شے موجود نہیں سو جو تاریخ کو مسخ کرتے ہیں …تاریخ انہیں اس بری طرح مسخ کر دیتی ہے کہ وقت کے آئینے میں وہ خود اپنی شکل بھی نہیں پہچان سکتے ۔
میں چند روز کیلئے سر جیمز لائل کے شہر جا رہا ہوں جہاں میرا لڑکپن گزرا اور جس شہر کیلئے حبیب جالب نے لکھا تھا ۔
”لائل پور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد“
اور اسی شہر کیلئے قمر لدھیانوی مرحوم و مغفورنے کہا تھا
اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سے
تیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.