Javed Iqbal
ٹھنڈے دل و دماغ اور غیرجانبداری سے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب تلاش کیجئے اور ایسا کرتے وقت آپ کو صرف، صرف اور صرف ایک ”پاکستانی“ ہونا چاہئے نہ کوئی جیالا نہ متوالا۔
کیا امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کے بعد وہاں کے عوام نے مکمل یکجہتی کا ثبوت نہیں دیا؟
کیا کسی بھی ایسے ملک کی سیاسی جماعتوں نے اپنے ملک کے حکمرانوں، مسلح افواج،حساس اداروں کے سربراہوں کے استعفوں کا مطالبہ کیا؟ یا انہیں سکینڈلائز کرنے کی کوشش کی؟
کیا دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کو تنازع بنانے یا اپنی اپنی پارٹیوں کی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کیا گیا؟
کیا ایسے سانحات پر متعلقہ ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم غیرملکو ں کے دوروں پر روانہ ہوئے؟ دورے جاری رکھے؟ یا دورے کینسل کرکے فوراً واپس آئے؟
کیا افواج کو ملک کے 98 فیصد غریب اور متوسط طبقہ کا ساتھ دینا چاہئے یا پھرجاگیرداروں اور سیاسی سرمایہ داروں کی سرپرستی کرنی چاہئے؟
قوم کو خودکش حملے اور دھماکے کرنے اور کرانے والوں کے خلاف کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئے؟ ان کا ساتھ دینا چاہئے یا دوٹوک انداز میں ان کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے؟ یاکنفیوژن کے عالم میں رہنا چاہئے؟
دہشت گردی کے خلاف خون آشام جنگ میں جانی قربانیاں مسلح افواج، رینجرز، پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور افسران نے دیں یا سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے؟
اگر امریکی اہلکاروں کا پاکستان میں داخل ہو کر کارروائی کرنا ہمارے ملک کی خودمختاری پرحملہ ہے تو پھر کیا ایک انتہائی ”مطلوب“ غیرملکی اُسامہ کاغیرقانونی طور پر پاکستان میں قیام جائز تھا؟
کیا ملک میں ہونے والے ڈرون حملے حکومت، افواج اور حساس اداروں کی اجازت یا علم کے بغیر ہو رہے ہیں یا ان کی اجازت اور مرضی سے؟
گر مرضی، اجازت سے ہو رہے ہیں توکیا عوام کو اعتماد میں لینا ضروری تھا یا نہیں؟موجودہ نازک ترین حالات میں حکومت، اس کی حلیف جماعتوں، مسلح افواج اور اپوزیشن جماعتوں کوکیا کرنا چاہئے؟ قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا اور متحد ہونا چاہئے یا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو کر ایک دوسرے کوصورتحال کاذمہ دار قرار دینا چاہئے؟کیا امریکہ سے تمام تر تعلقات ختم کرکے باقاعدہ جنگ کا آغاز کردینا چاہئے یا نئے سرے سے پروقار تعلقات کا آغازکرنا چاہئے؟موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں افغانستان، ایران، بھارت اورچین سمیت تمام ممالک کے ساتھ تعلقات پر ازسر نو غور کرنا چاہئے یا نہیں؟ہمیں ملک میں مثبت، پرامن انقلاب کے لئے تیار ہونا چاہئے یا اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو ہی محب وطن قرار دینے کا رویہ جاری رکھنا چاہئے؟قارئین!یہ تو ہیں وہ چند سوال جو ایم کیو ایم نے اپنے عوامی ریفرنڈم میں اہل وطن سے پوچھے ہیں۔ الطاف حسین کے چند اور سوال بھی بہت دلچسپ اور اہم ہیں جن پرغور کرنے میں کسی نقصان کا احتمال نہیں مثلاً … کیا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت نہیں کہ امریکہ تو کئی طرف سے پاکستان کا پڑوسی ہے جبکہ پاکستان امریکہ سے ہزاروں میل دور ہے؟ کیا یہ بھی ایک انتہائی کڑوا سچ نہیں کہ دنیا بھر میں Stealth technology صرف امریکہ کے پاس ہے؟ اورکیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ جب ”عوامی نمائندوں“ کو افواج کے نمائندہ نے کہا ”آپ حکم دیں ہم ڈرون تباہ کر دیں گے لیکن اس کے بعد امریکی ردعمل کا پارلیمینٹ کے پاس کیا جواب یا بندوست ہوگا؟“ … تو سب کو سانپ سونگھ گیا؟
چلتے چلتے یہ بات بھی عرض کردوں کہ صحیح اور غلط… سچ اور جھوٹ بعد کی بات ہے۔ نازک اور حساس قسم کے معاملات میں ”ٹائمنگ“ انتہائی فیصلہ کن ہوتی ہے۔ منصور نے سولی سجالی تو کچھ لوگوں نے اس کے پیرومرشد سے پوچھا … ”کیا منصور نے غلط بات کی تھی؟“ فرمایا… ”نہیں بات ٹھیک تھی لیکن غلط لوگوں کے سامنے غلط وقت پر کی گئی تھی۔“
افواج کے بارے احتیاط
گلے شکوے کے لئے انتظار
کہ یہ وقت نہ پوائنٹ سکورنگ کے لئے درست ہے نہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے !
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.