Javed Iqbal
 
یہ رینگنے والے... چوراہا …حسن نثار
قاضی حسین احمد صاحب کا میرے دل میں کتنا احترام ہے اور میں ان سے کتنی محبت کرتا ہوں، میرا دل ہی جانتا ہے اور کچھ کچھ اندازہ محترم قاضی صاحب کو بھی ہوگا۔ میں نے کبھی کسی ”پیشہ ور“ کو اپنے کسی بھی بچے کے کان میں اذان دینے کی زحمت کبھی نہیں دی… ہمیشہ یہ فرض خود ادا کیا کیونکہ مجھے مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور بطور مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود میں اپنے عمل اور کردار سے پوری طرح مطمئن ہوں لیکن میری اکلوتی بیٹی محمدہ ہانسی کویہ فخر حاصل ہے کہ اس کے کانوں میں اذان محبی و محترمی قاضی صاحب نے دی تھی اور یہ پلانڈ ہرگز نہ تھا۔ اچانک اطلاع ملی کہ قاضی صاحب ہسپتال تشریف لا رہے ہیں، میں رک گیا اور شریک ِ حیات سے کہا ”قاضی صاحب خیر خیریت معلوم کرنے تشریف لا رہے ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ نوزائدہ کے کان میں اذان دیں۔“
اس انتہائی ذاتی و جذباتی تمہید کے بعد عرض ہے کہ پچھلے دنوں محترم قاضی صاحب کا قسط وار مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا… "Creeping Islam" جس کا اردو ترجمہ ظاہر ہے یہی ہوسکتا تھا… ”رینگتا ہوا اسلام“ مجھ سے زیادہ دکھی اور زخمی مسلمان بھی کم ہی ہوں گے حالانکہ میری قسم کی اصلاح احوال بہت سوں کو سمجھ نہیں آتی کہ میرا مزاج اور اسلوب ہی ایسا ہے جو کچے ذہنوں اور ناخواندہ یا نیم خواندہ لوگوں کو مخمصے میں مبتلا کردیتا ہے کیونکہ
میں حریفوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرأت پیدا کی جائے لیکن یہ ایک اور ”ایریا“ ہے جبکہ فی الحال مجھے قاضی صاحب سے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ خدارا! اپنا عنوان تبدیل کرلیں۔ گزشتہ کئی صدیوں سے جو اس کرہ ٴ ارض پر ”رینگ“ رہا ہے وہ ”اسلام“ نہیں بلکہ ”مسلمان“ ہیں۔ اسلام تو صدیوں سے سنت ِ رسول اللہ اور کتاب اللہ میں سربلند منتظر ہے کہ مسلمان بھی اپنے اصل کی طرف لوٹیں… رب العالمین کی قسم…خاک ِ پائے رسول اللہ کی قسم، ہجرت کے رستے، بدرکے میدان، احد کے پتھروں کی قسم اسلام نہیں رینگ رہا… مسلمان رینگ رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ کہ پہلے مسلمان اور پہلی اذان کی قسم مسلمان بھی نہیں… ”نام نہاد مسلمان“رینگ رہے ہیں۔ اقبال مجھ سے کہیں زیادہ قاضی صاحب کو پسند ہے جس نے کہا تھا:”یہ امت خرافات میں کھو گئی“ہمیں سزا مل رہی ہے اور ٹھیک مل رہی ہے۔ جب تک ہم نہیں بدلیں گے ہماری دنیا، ہمارے حالات، ہماری اوقات نہیں بدلے گی اورسچ یہ ہے کہ مجھے دور دور تک ایسا ہوتادکھائی نہیں دیتا کہ ”عالم اسلام“ کو تو اپنی ترجیحات کی اے بی سی بھی معلوم نہیں… سمت کا تعین ہی نہیں ہو پا رہا تو کہاں کا سفر اور کون سی منزل؟ میں تو صرف ایک ٹیکنیکل سی بات کر رہا ہوں کو جوشے کرہ ٴ ارض پر ”رینگ“ رہی ہے وہ اسلام نہیں… اس کے وہ نام لیوا ہیں جو اس کے اصل پیغام سے صدیوں دورہیں بلکہ شاید اس کے بالکل برعکس اور اب۔سلام پہنچے، ہزار بار پہنچے انصار برنی، ایڈمرل نعمان بشیر اور جنرل پاشا تک جنہوں نے مسلمان کے شایان شان رویہ اپناتے ہوئے صرف اپنوں کو ہی نہیں ”غیروں“ کو بھی ریسکیو کیا… قربان جاؤں کہ ایک ہی جھٹکے میں طوفان زدہ پاکستان کا ایک نیا چہرہ دنیا کو دکھایا اور بین الاقوامی برادری کو بتایا کہ راکھ کی اس ڈھیری میں شعلہ و چنگاری آج بھی موجود ہے۔مجھے ایک بھارتی قیدی کی بیوی کے ”جیو“ پر سنے یہ جملے نہیں بھول رہے کہ اس کے دادا کہا کرتے تھے کہ… ”سچے مسلمان کی دوستی سے بڑا تحفہ کوئی نہیں“ میری اس ہندو ”بہن“ کے دادا نے بڑی ہی کڑی شرط لگائی۔… ”سچا مسلمان“ کہ بے شک سچا مسلمان تو اس دھرتی پر قدرت کا احسان ہے لیکن مدتوں سے یہ ہے کہاں؟
معصوم بچوں کے دودھ میں غلاظتوں کی ملاوٹوں والے؟
جھوٹی شہادتیں سرعام عدالتوں میں بیچنے والے؟
جعلی کلیموں،جعلی ڈگریوں، جعلی دواؤں والے؟
سرکاری اور عوام کی جگہوں پر ناجائز قبضے کرنے والے؟
اسراف کرنے، غیبت کرنے، سود کھانے والے، ایک ہی سوراخ سے کئی کئی بارڈسے جانے والے ، مردوں سے مرادیں مانگنے والے، تھانے بیچنے اور سکولوں میں مویشی باندھنے والے، اونچ نیچ اور ذات پات کو اپنا ”ایمان“ بنانے والے، شخصیت پرستی کی شکل میں ”بت پرستی“ کو انتہا پر پہنچانے والے، تصویر کو حرام ڈکلیئر کرکے ڈالر جبے میں ڈالنے والے، رشوت کو سپید منی کہہ کر فرشتوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے والے، حرام کی رقم مسجد کو عطیہ کرکے جنت میں کارنر پلاٹ بک کرانے والے ”شکل مومناں کرتوت کافراں“ جیسے محاورے ایجاد کرنے والے… بھائی! ہم ہیں کون؟
”جیو“ کے اس جینئس کا ماتھا چومنے کو جی چاہتا ہے جس نے وہ ”اشتہار“ سوچا یا تصور کیا جس میں 98 فیصد سو اربوں سے لدی بس کو صرف دوفیصد سواریاں دھکا لگا کر ”سٹارٹ“کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ واضح اشارہ اس طرف ہے کہ اس ملک میں صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بھیانک ترین حقیقت یہ ہے کہ 2 فیصد بھی نہیں دیتے کیونکہ دراصل اس دو فیصد میں بھاری تعداد ان لوگوں کی ہے جو ٹیکس چوری کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تنخواہ دار لوگ ہیں جن کے ادارے ٹیکس کٹوتی کے بعد انہیں تنخواہ دیتے ہیں کیونکہ قانوناً ایسا کرنے کیلئے مجبور اور پابند ہیں۔ مطلب یہ کہ یہاں کوئی بھی حبیب ڈھیلی کرنے پرآمادہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ جس زاویئے سے بھی دیکھیں ہم اس نتیجہ پرپہنچیں گے کہ اسلام نہیں… مسلمان رینگنے پرمجبور ہیں اور جب تک رویئے تبدیل نہیں ہوں گے… رینگنا ہی ہمار مقدر رہے گا۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.