Javed Iqbal


ہمارے مشتاق احمد یوسفی مزاح کے امام ہی نہیں، ماتم یعنی ٹریجڈی کے بھی امام ہیں۔ ان کی تحریروں میں قہقہے آنسوؤں کے سمندر پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ لوگوں کو یہ قہقہے تو سنائی دیتے ہیں، سمندر دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے جلپری نہاتی دکھائی دے تو دیکھنے والا اسی میں گم ہو کر سمندر بھول بیٹھے گا۔ یوسفی اپنے مزاح کی وجہ سے زندہ اور خفیہ ماتم کے سبب پائندہ رہیں گے۔
سادہ قہقہہ بھانڈ کا بچہ یا جگت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن جو قہقہہ شدید کرب کی پیکنگ میں لپٹا ہو یا اس کا خمیر ہی ماتم سے اٹھایا گیا ہو، وہ امر ہو جاتا ہے جیسے یوسفی صاحب کا قہقہہ یا اس قہقہہ کی فرسٹ کزن… مسکراہٹ۔
یوسفی صاحب ادب اور اعداد و شمار کی دنیا کے شہری ہیں جن کا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا میرا مارشل آرٹس سے لیکن ذرا ان چند اقتباسات پر غور فرمایئے کہ اس ملک کا اتنا بڑا نیوٹرل انٹلیکچول تاریخ و دیگر معاملات کو کیسے دیکھتا ہے۔ میری مختصر سی تمہید کے بعد اب جو کچھ بھی کرینگے یوسفی صاحب ہی کرینگے جیسے جنگل میں فا ئنلی جو کچھ بھی کرتا ہے، شیر ہی کرتا ہے۔ میں اپنی اس اتفاقیہ تکلیف دہ تحقیق پر ان سب سے معافی چاہتا ہوں جنہیں بیلٹ باکس جیبیں اور خزانہ صاف کرنا تو آتا ہے… معاف کرنا نہیں کہ اس کام کے لئے اور طرح کے گھروں، سکولوں اور معاشروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود یوسفی صاحب بھی یہ نہ سمجھیں کہ میں نے ان کے کندھوں پر رکھ کر ”ابدالی“ چلا دی ہے لکھتے ہیں۔
”ڈھاکہ مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے۔ فجر کی اذانوں کے بعد ہر تیسرے گھر سے لڑکیوں کے گانے اور ہارمونیم کی آواز سنائی دی۔ دفتر پہنچے تو بینک کے جرمن منیجر نے شکایت کی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بنگالی منیجر کمرشل بینکوں کی ر وزمرہ کی ضروریات کے لئے ڈھاکہ سے کراچی روپیہ بھیجنے میں پس و پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے بنگال کا ر وپیہ بنگال ہی میں رہنا چاہئے۔ یاد رہے، پاکستان بنے ابھی
دس سال بھی نہیں ہوئے تھے!“۔
(زرگشت صفحہ146)
”اپنی ذات سے مایوس لوگوں کا اس سے زیادہ نمائندہ اجتماع ہم نے اپنے چالیس سالہ تجربہ میں نہیں دیکھا۔ شہر کے چوٹی کے ادھیڑ یہاں موجود تھے۔ ذرا دیر بعد پیر صاحب تشریف لائے۔ بھاری بدن، نیند میں بھری ہوئی آنکھیں، چھاج سی داڑھی، کترواں بسیں، ٹخنوں تک گیروا کرتا، سر پر سیاہ مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی جس کے نیچے روپہلی بالوں کی کگر۔ ہاتھ میں سبز جریب، ساز ملائے گئے یعنی ہارمونیم کو تالیوں سے اور تالیوں کو مٹکے سے ملایا گیا اور جب کلام شاعر کو ان تینوں کے تابع کرلیا گیا تو قوالی کا رنگ جما“۔
(خاکم بدہن صفحہ نمبر111)
”خدا جانے کہاں تک صحیح ہے، دشمنوں نے اڑائی تھی کہ ایوب خان کے عشرہٴ الخطاط میں سرکاری مفتی اعظم ڈاکٹر فضل الرحمن نے کہ میگل یونیورسٹی سے علم دین کی سند لائے تھے، یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ ازبسکہ بیئر میں فقط پانچ فیصد الکحل اور 95فیصد پانی ہوتا ہے، اس کا پینا ازروئے شرع حلال ہے۔ اسی نوع کے دو تین فتاویٰ پرفتور کی پاداش میں انہیں جلاوطن ہو کر دس گنا تنخواہ پر امریکہ جانا پڑا۔ اگر ڈاکٹر صاحب قبلہ ذرا بھی سمجھ اور سائنس سے کام لیتے تو فتویٰ میں عاقلوں کو بس اتنا اشارہ کافی تھا کہ بیئر 95فیصدحلال ہے!“
(زرگزشت صفحہ نمبر50)
”تاہم ہماری کھال ابھی حسب ضرورت موٹی نہیں ہوئی تھی ہم ہمہ وقت سیسموگراف کی طرف لرزتے رہتے تھے کہ اس کا کام ہی زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کرنا ہے۔ تیئس سال اس پیشے سے منسلک رہنے کے بعد ہم اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ آدمی اپنی آنکھوں کے سا منے کسی کو کروڑ پتی بنتا دیکھ لے تو انسانیت اور اعلیٰ اقتدار پر سے اس کا ایمان یکسر اٹھ نہیں جاتا تو متزلزل ضرور ہو جاتا ہے۔ بینکر کی پتھرائی ہوئی آنکھیں روز یہی منظر دیکھتی ہیں اور اس بیچارے کو بقول مرزا، اپنے ایمان کو روز حقے کی طرح تازہ کرنا پڑتا ہے“۔
(زرگزشت صفحہ نمبر144)
”ہم بھی اس امریکن بی بی کو کچھ جواب دیتے لیکن ہمارا نمک حلال معدہ اس وقت امریکن گیہوں کی روٹی ہضم کرنے میں سرگرم عمل تھا۔ یادش بخیر! امریکہ سے پہلے پہل خیراتی گندم کی کھیپ آئی تو وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے کراچی کے اونٹوں کے گلے میں ”تھینک یو امریکہ“ کی تختیاں لٹکوا کر شہر میں گشت کروایا تھا۔ امریکہ کو یہ خمار گندم اور اونٹ کی زبانی قومی جذبہٴ تشکر کی ترجمانی بہت بھائی چنانچہ اس نے بجا طور پر وزیراعظم کی بجائے بشیر ساربان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی“۔
(زرگزشت صفحہ نمبر154)
”لیڈر خود غرض، علماء مصلحت بیں، عوام خوفزدہ اور راضی برضائے حاکم، دانشور خوشامدی اورا دارے کھوکھلے ہو جائیں (رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے وابستہ ہیں تو! کامل اس فرقہ تجار سے نکلا نہ کوئی) تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو ”غضب ناک“ نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالئے ڈکٹیٹر خود نہیں آتا لا یا اور بلایا جاتا ہے“۔
(آب گم صفحہ نمبر13)
”کبھی کبھی قومیں بھی اپنے اوپر ما ضی کو مسلط کرلیتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے جو قوم جتنی پسماندہ، درماندہ اور پست حوصلہ ہو اس کو اپنا ماضی، معکوس اقیلاسی تناسب (inverse Geometrical Ratio)میں، اتنا ہی زیادہ درخشاں اور دہرائے جانے کے لائق نظر آتا ہے۔ ہر آزمائش اور ادبار اور ابتلاء کی گھڑی میں وہ اپنے ماضی کی جانب راجع ہوتی ہے اور ماضی بھی وہ نہیں کہ جو واقعتا تھا، بلکہ وہ جو اس نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق ازسر نو گھڑ کر آراستہ پیراستہ کیا ہے… ماضی تمنائی۔ اس پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مورخاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے“
(آب گم صفحہ نمبر18)
قارئین!
”کہاں تک سنو گے“ والی بات ہے یا ”سنتے جا شرماتا جا“ لیکن سننے کیلئے کان اور شرمانے کیلئے شرم ضروری ہے!

 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.