Javed Iqbal

خود مختاری کا زخمی خواب …چوراہا …حسن نثار

اس ملک میں ہر ہفتہ دس دن بعد دو کام ضرور ہوتے ہیں۔.

اول : مہنگائی میں اضافہ

.دوم : ساورنٹی “ یعنی بطور ملک اپنی خودمختاری پر ماتم
مہنگائی پر تو رونا پیٹنا چلتا ہی رہتا ہے لیکن آج اس نام نہاد ” ساورنٹی “ یعنی خودمختاری پر بات ہو جائے کہ اس ملک کی ہر ٹائپ کی اشرافیہ اس موضوع پر عوام کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے اور مجھے وہ پہلا شخص ہونے کا اعزاز حاصل کرنے دیں جس نے اون دی ریکارڈ یہ کہا …”ہم روز اول سے ہی خود مختار ملک نہیں ہیں اور میرٹ پر ہم زیادہ سے زیادہ خود کو ” نیم خودمختار “ ملک کہہ سکتے ہیں ۔ تازہ ترین ثبوت ہیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور ہماری حدود میں اسامہ بن لادن کی امریکنوں کے ہاتھوں موت، یہ سب کچھ منطقی بلکہ سائنسی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ” خود مختار “ ہو ہی نہیں سکتا۔ باوقار ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس ملک کے عوام صحیح معنوں میں ”خودمختار “ اور ”باوقار “نہیں ہوتے ۔
اٹھارہ کروڑ عوام کو مظلوم اور محکوم رکھنے کے بعد…
اٹھارہ کروڑ عوام کو ان پڑھ جاہل رکھنے کے بعد…
اٹھارہ کروڑ لوگوں کو ”مٹی کے مادھو“ …”روبوٹ “ اور ”کٹھ پتلیاں“ بنانے کے بعد … اٹھارہ کروڑ عوام کو جہل زدہ جذبات کی بھٹی کا ایندھن بنانے کے بعد اگر اٹھارہ سو یا ہزار ”سیانا “ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ”ٹھکانہ“”ساورن“ یعنی خود مختار ہو سکتا ہے ” تو جان لیجئے کہ یہ ”سب سطحی صالحین“… ”فائیو سٹار چھچھورے“ اور ”بائیس کیرٹ کے بوزنے“مکمل بربادی کی طرف گامزن ہیں ۔ عوام کے حالات جیسے ہی بدتر کیوں نہ ہوں وہ زندہ رہیں گے کہ عوام کبھی نہیں مرتے ۔ فرعونوں، شدادوں، نمرودوں، ہامانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے نام ونشان بھی باقی نہیں رہتے ۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ ہماری غلیظ اشرافیہ کا کوئی فرد اس ”ساورن ملک “ میں اپنا معمولی سا آپریشن کرانا بھی پسند نہیں کرتا اور اس ملک کے تمام ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور دواؤں پر تھوک کر باہر چلا جاتا ہے ؟ کیا یہ ”ساورنٹی “ ہے ؟
ایف 16سے لیکر آبدوزوں تک کیلئے اغیار کی محتاجی اور گداگری ؟ کیا یہی اوقات اور حیثیت ہے تمہاری ”ساورنٹی “ کی ؟
اعلیٰ تعلیم کیلئے … صحیح معنوں میں سبجیکٹ سپیشلسٹ بنانے کیلئے بیٹے ، بیٹیاں” اغیار “ کے ”دربار “ میں بھیجنے پڑتے ہیں تو کیا یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے ”یا خودمختاری “ کے ”الہام“ کا جو صرف کسی احمق پر ہی اتر سکتا ہے ۔
عالم اسلام کے روحانی طور پر اہم ترین اور معاشی طور پر دولت مند ترین ملک کا سربراہ بھی اگر علاج کیلئے ”اغیار“ کا محتاج ہے تو یہ پاکستان، پاکستانی اور ان کی نام نہاد خودمختاری کس کھاتے میں ؟ہوش کرو بابا ! ہوش کرو کہ ” خالص خودمختاری “نہ موتی چور کا لڈو ہے نہ شیواز ریگل کا پیگ ، نہ سائیو لرو کا ہینڈ سٹیجٹڈ سوٹ ہے نہ کسٹم میڈ کارز جیسی سینکڑوں برونائی کے مسلمان سلطان حسن البلقیہ کے پاس ہیں اوریاد رکھنا کہ ” خود مختاری “ نہ مولانا روم کی مثنوی ہے نہ علامہ اقبال کا شعر اور نہ ہی محمد علی جناح کی کوئی تقریر۔
عہد حاضر میں ”خودمختاری “ کیلئے نہ کوئی شارٹ کٹ ہے نہ وظیفہ … صدام حسین سے لیکر ملا عمر اور اسامہ بن لادن تک ان سب کی سوچ، گفتگو اور اعمال ملتے جلتے تھے تو غور کرو ان کے انجام بھی ملتے جلتے ہیں یا ہوں گے ۔جان لو کہ ”غلبہ “ اور ”بدلہ“ تو بہت دور کی بات ہے لوگو ! ہمیں تو صرف برابری کی سطح پر بات کرنے کیلئے لمبے اور جان لیوا سفر کی ضرورت ہے۔
ہر نام نہاد ہیرو توہین آمیز ترین انداز میں عبرتناک انجام سے دو چار لیکن یارلوگ مسلمانوں کو مسلسل کنفیوژ کئے جا رہے ہیں۔
بے تحاشہ دولت ہو، بے پناہ غصہ ہو اور بہت ہی گھٹیا درجے کا دماغ ہو تو صدام اور اسامہ ہی جنم لے سکتے ہیں ۔ اسامہ بیچارہ تو بنجارہ تھا جبکہ صدام حسین عراق کا عقل کل لیکن انجام سب کا ایک سا تھا اور ہو گا کیونکہ ان کا ”مائنڈ سیٹ“… ”مکالمہ “ اور ”مینر ازم“ ایک سا تھا ۔
مجھے یہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ عالم اسلام کے بدترین دشمنوں کے بھیانک ترین ایجنٹس لگتے ہیں اوریہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان میں سے کوئی جانتا ہی نہ ہو کہ کن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ؟ کن کی کٹھ پتلی بن کر ناچ رہاہے ۔
آج مسلمانوں کیلئے نہ کوئی شارٹ کٹ ہے نہ مہم جوئی ان کا کوئی مسئلہ حل کرسکے گی ۔ مسلمانوں کو بصیرت ، بصارت، حکمت کی جتنی ضرورت آج ہے ، شاید کبھی نہ تھی ۔ غلبہ اور بدلہ کا بخار اتار کر صرف اس کو ٹارگٹ کرو کہ اس کرہ ارض پر برابری کی سطح پر زندہ رہ سکو ورنہ

 

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.