Javed Iqbal
میاں نے مچادی…ہلچل“لیکن؟...چوراہا … حسن نثار
ہمارے ادھر گندم کی کٹائی تو مکمل ہوچکی لیکن تھریشنگ کا کام کچھ کچھ باقی ہے۔ تھریشنگ کے دوران اک خاص قسم کا گردوغبار ہوا کے رخ پر بہنے لگتا ہے جس میں گندم کی عجیب سی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ آج ہوا کا رخ ہمارے گھر کی طرف تھا لیکن گرد و غبار کی اس لہر کے ساتھ لپٹ کر عظیم گائیک غلام علی بھی بن بلائے چلا آیا۔ تھریشنگ میں مصروف لوگ اعلیٰ ذوق کے مالک تھے ورنہ ٹریکٹروں اور ایسے موقعوں پر عموماً پنجابی گانوں کا زور ہوتا ہے لیکن صبح صبح ہی غلام علی اور غزل بھی کیسی…
”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا؟“
ہمارا ملک مدتوں سے”ہنگامستان“ بنا ہوا ہے۔ قوم کا سفر صرف یہی رہ گیا ہے کہ ایک ہنگامے سے نکل کر کسی دوسرے ہنگامے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بے درد دائرے کا بے فیض سفر ہے جس کی منزل کوئی نہیں
”کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ“ ایک مہنگائی سے دوسری مہنگائی کی طرف
ایک دھماکے سے دوسرے دھماکے کی طرف
ایک ڈرون سے دوسرے ڈرون کی طرف
ایک سیکنڈل سے دوسرے اس سے بھی بڑے سکینڈل کی طرف
ریمنڈ ڈیوس سے اسامہ کی طرف
واقعی سو فیصد وہی والا معاملا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا تھا…
”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق“
دوسرا مصرعہ اتنا منحوس ہے کہ لکھنے کو جی نہیں چاہا لیکن سچ یہی کہ یہ شعر پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ تازہ ترین ہنگامہ میاں نواز شریف کی عطا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ”مولوی ہلچل“ نامی میاں صاحب کاایک متوالا اس نعرے سے ان کے جلسے گرمایا کرتا تھا۔
”میاں نے مچادی ہلچل“
تب کا تو علم نہیں لیکن اب ضرور میاں صاحب نے ہلچل مچادی ہے۔ پریس کانفرنس کیا تھی، ہنگاموں کی پٹاری تھی جو میاں نے سرعام کھول کر رکھ دی۔ یوں تو آپ سب کو میاں صاحب کی اس پریس کانفرنس کی تفصیلات کا عمل ہوگا لیکن احتیاطاً چند ہائی لائیٹس دوہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
میاں نواز شریف نے کہا
”حکومت امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی تابعداری چھوڑ دے۔
فوج اور خفیہ اداروں کے بجٹ پارلیمنٹ میں لائے جائیں“
”خارجہ پالیسی بنانا فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کام نہیں“
”حکومت کے اندر حکومت نہیں کرنے دے سکتے“
سیکورٹی ادارے سول کنٹرول میں لائے جائیں“
”ایجنسیاں پارٹیاں بنانا اور انہیں تقسیم کرنا چھوڑ دیں“
”امریکہ یا کوئی پاکستانی ادارہ ناراض ہوتا ہے تو ان کی مرضی“
”ایجنسیوں کا کام حکومتیں گرانا اور اتحاد بنوانا نہیں“
”ایجنسیاں سیدھے راستے پر آجائیں“
اور انگریزی اخبارات میں سے ایک کی سرخی بھی چکھ لیں
"Nawaz warns int agencies to mend ways"تری آواز مکے اور مدینے
میاں نواز شریف گھر کے بھیدی ہیں سو ان سے بہتر لنکا ڈھانے کا کام اور کون کرسکتا تھا؟اور تاریخ کا یہ جبر بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پیپلز پارٹی نواز لیگ ہوگئی ہے اور نواز لیگ پیپلز پارٹی بننے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھے فرنٹ فٹ پر آگئی ہے۔ رولز ریورس ہوگئے اور جو جیتا وہی سکندر۔
”ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا“
یہاں پھر منیر کی وہ مختصر سی پنجابی نظم یاد آتی ہے کہ…”کچھ تو رستے بھی ناہموار تھے، اوپر سے گلے میں غم کا طوق بھی تھا، کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے کچھ یہ کہ مجھے بھی مرنے کا شوق بہت تھا“
جو بھی ہو مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ میاں صاحب نے ایسا کیا کہہ دیا کہ ہر طرف ہنگامے اور ہلچل کا سا عالم ہے۔ کالم نگاروں سے لے کر اینکروں اور میزبانوں سے لے کر مہمانوں تک کی زبانوں پر اس پریس کانفرنس کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں، حالانکہ میاں صاحب نے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں کی جو عصر حاضر کی مہذب دنیا میں من و عن سو فیصد اسی طرح پریکٹس نہیں ہورہی ۔ میاں صاحب کی پریس کانفرنس کا ایک ایک جملہ، نکتہ یا مطالبہ انتہائی بنیادی، انتہائی نصابی اورانتہائی کلیدی تھا سو اس پر اتنی اچھل کود کم از کم اپنی عقل سے تو بالکل باہر ہے۔
میاں نواز شریف کی اس لمبی چوڑی اور بظاہر جلالی قسم کی پریس کانفرنس کا نچوڑ ،خلاصہ ،باٹم لائن اور سمری صرف یہ ہے کہ اس ملک میں افراد اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں اور تجاوزات کی غلاظت سے دور رہیں … اکیڈیمک حوالہ سے بات بہت خوبصورت ہے لیکن شاید ایسا ہوگا نہیں کہ تجاوزات یعنی اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہماری گھٹی میں شامل ہوچکا …یہ سب ہمارا کلچر بن چکا ہے۔ صدر سے لے کر فٹ پاتھ پر قابض سبزی فروش تک ہر کوئی تجاوزات کے موذی مرض میں مبتلا ہے اور دیرینہ و پیچیدہ ،ظاہر و پوشیدہ امراض کا علاج پریس کانفرنسوں سے نہیں ہوتا اور آخری بات یہ کہ جتنی طاقت ہوگی…
تجاوزات کی طرف میلان، رجحان اور جھکاؤ بھی اسی تناسب سے ہوگا
کہیں ایسا تو نہیں کہ منہ چھوٹا اور نوالہ بڑا ہو؟
پاؤں اور جوتے کے سائز میں بہت فرق ہو
آنکھیں سیاہ اور خواب رنگین ہوں
اور ہم چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لئے شیشے کا سائبان ڈھونڈرہے ہوں یا بے گھری سے تنگ آ کر ایسے مکان کی خواہش کررہے ہوں جس کی بنیادوں میں نمک بھر ا ہوا ہے۔
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آلیا
اللہ کرے پھول اصلی ہوں یا بارش نہ برسے
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.