Javed Iqbal
خدا جانے میں بار بار یہ مرثیہ کیوں پڑھ رہا ہوں اور اس میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آج اس کو اپنے کالم کا حصہ کیوں بنانا چاہتا ہوں؟ اس میں کوئی اشارہ ہے جسے میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا لیکن میرے معاملہ میں عدم ابلاغ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بھی میری طرح کمیونی کیشن کے قحط کا شکارہوں۔
یہ شہکار شیخ سعدی شیرازی کی ”بوستان“ سے لیا جو پہلا شاعر تھا جس نے قومی، ملی زوال کو مرثیہ گوئی کا موضوع بنایا۔ ہلاکو خان کی قیادت میں وحشی تاتاریوں کی اندھی یلغار کے نتیجہ میں بغداد اور اہل بغداد کے ساتھ جو کچھ ہوا، سعدی ان تمام مناظر کے چشم دید گواہ تھے۔ سید سبط الحسن ضیغم لکھتے ہیں کہ سعدی کی ”گلستاں“ اور ”بوستاں“ کی تخلیق کا یہی پس منظر ہے جس کی وجہ سے سعدی شیرازی نے حکمرانوں، اہل دانش، ہنروروں اور عوام کو آبرو مندانہ
زندگی گزارنے کے گر بتلائے۔ ریاست اور رعایہ کے تعلقات اور معاملات کو خوش اسلوبی سے نپٹانے اور دلنشیں انداز میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی لیکن میکیاولی کی ”پرنس“ کوٹلیہ چانکیہ کی ”ارتھ شاستر“ اور شیراز کے سعدی کی ”گلستان و بوستان“ میں و ہی فرق ہے جو ان تینوں کے عقائد، تہذیب و تمدن میں ہے چنانچہ سقوط بغداد پر سعدی نے جو دل دہلا دینے والا مرثیہ رقم کیا، حالی کی ”مدوجزر اسلام“ اسی مرثیہ کی باز گشت معلوم ہوتی ہے۔ اسی طویل مرثیہ کے کچھ اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مسطورہ بالا امور کی تصدیق ہوسکے۔

”آسمان کا فرض ہے کہ مستعصم کی تباہی پر خون برسائے۔
یا محمد! اگر آپ قیامت ہی کو مرقد سے باہر نکلیں گے تو ابھی نکل کر دنیا میں قیامت دیکھ لیجئے۔
محل کے ناز پروردوں کے حلق کا خون ڈیوڑھی سے بہہ گیا اور ہمارے دل کا خون آستین سے ٹپک نکلا۔
دنیا کی گردش اور زمانہ کے انقلاب سے پناہ مانگنا چاہئے۔ یہ بات کسی کے خیال میں بھی نہ آئی تھی کہ سب کچھ یوں سے یوں ہو جائے گا۔
جنہوں نے اس بیت الحرام کی شان و شوکت دیکھی ہے جہاں روم کے قیصر اور چین کے خاقان خاک خار پر سررگڑتے اور زمین پر بیٹھتے تھے، وہ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھیں۔
کہ پیغمبر خدا کے چچا کا خون اس خاک میں بہہ گیا جس پر سلاطین ماتھا رگڑتے تھے۔
آئندہ دنیا سے آرام کی توقع رکھنا نہیں چاہئے کیونکہ انگوٹھی میں سے نگین نکل جائے تو باقی صرف کلونس رہ جاتی ہے۔
دجلہ کا پا نی خوں ناب ہوگیا ہے۔ اگر اب جاری رہے گا تو نخلستان بطحا کی خاک کو خون سے رنگین کر دے گا۔
شہیدوں کی خاک پر نوحہ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ان کے لئے ادنیٰ ترین نعمت فردوس بریں ہے۔
ہاں! مگر رحم اور اسلام کی ہمدردی کے سبب دوست کا دل دوست کی جدائی پر کڑھتا ہے۔
کل تک صبر کرو۔ قیامت کے دن د یکھ لینا کہ قبر سے اہل قبر خون آلود منہ لے کر اٹھیں گے۔
یارو! دنیا پر بھروسہ کرنا اور اس سے دل لگانا نہیں چاہئے کیونکہ آسمان کبھی دوست ہے کبھی دشمن۔
شجاعت کا زور موت پر غالب نہیں آسکتا اور جب قضا آتی ہے تو صائب رائے کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔
جس مجاہد کی گھات میں اجل ہوتی ہے، اس کی اصیل تلوار میان سے باہر نہیں نکلتی۔
جب نصیبہ پٹ گیا، پھر اس کا امتحان کرنا بے فائدہ ہے اور جب زین الٹ گئی تو پھر حملہ کرنافضول ہے۔
یارو! مردار دنیا کے لئے گدھ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اگر تم عقلمند ہو تو سیمرغوں کی طرح الگ تھلگ بیٹھ جاؤ۔
قارئین!
یہ مرثیہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیخ سعدی کسی پہاڑی غار میں چھپے ابھی تک یہ مرثیہ لکھنے میں مگن ہیں۔ بغداد میں تاتاریوں کے جانے سے لے کر استعماریوں کی آمد تک موت کا رقص بھی جاری ہے اور شیخ کا مرثیہ بھی۔ اس دوران اگر کوئی فرق آیا تو فقط اتنا کہ اب تلواریں اور نیامیں نہیں ہوتیں ۔ ان سے کہیں زیادہ خونخوار ہتھیار ہوتے ہیں۔ اب گھوڑے اور زینیں نہیں ہوتیں… ”ڈرون“ ہوتے ہیں اور اب کوئی دجلہ خون سے سرخ نہیں ہوتا کہ رسم و رواج بدل چکے… اب تو دجلہ ویسے ہی بیچ کھاتے ہیں، اس کا پانی روک کر اسے گندی نالی یا ریگزار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اگر کہیں کچھ بچ رہے تو اس میں کیمیکل زدہ پانی ملا کر زہر میں تبدیل کر دیا جاتا ہے… کچھ بھی ہو مرثیہ نامکمل ہے اور یہ ادھورا مرثیہ کب اپنی تکمیل کر پائے گا؟ سعدی شیرازی کو تخلیق کی اس اذیت سے کب نجات ملے گی؟ میں نہیں جانتا سوائے اس کے کہ جب کبھی کسی بھی بغداد پر تاتار یا استعمار حملہ آور ہوتا ہے تو اس پر ضرور غور فرمایئے کہ وہاں کی نام نہاد اشرافیہ اور عوام کے اشتعال اور مصروفیات کیسی ہوتی ہیں؟ حکمران طبقات کی ترجیحات کیسی ہوتی ہیں اور ان کے دانشوروں کے موضوعات کیسے ہوتے ہیں؟ عوام کی آپس میں جڑت کیسی ہوتی ہے؟ حکمرانوں اور عوام کا رشتہ کیسا ہوتا ہے؟ اور خود حکمرانوں کے آپس میں تعلقات و معاملات کیسے ہوتے ہیں؟ اور وہ کیسا ماحول، کیسی فضا، کیسا کلچر ہوتا ہے جو تاتاریوں ا ور استعماریوں کو اکساتا ہے کہ انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے ، ان کی زمینوں کو قبرستان بنا دیا جائے۔
شیخ سعدی کا ادھورا مرثیہ پورا ہونے میں … یہ نامکمل مرثیہ مکمل ہونے میں مزید کتنی صدیاں لگیں گی کہ شیخ بری طرح تھک چکا اور اب آرام کرنا چاہتا ہے۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.