Javed Iqbal
میں نے 80تا90اتنا سفر کیا کہ سفر سے ہی نفرت ہوگئی۔ پھر اک نئی ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی کہ مجھے ہوائی سفر سے خوف محسوس ہونے لگا۔ چاہنے اور چاہنے والوں کی ورلڈ وائیڈ دعوتوں کے باوجود میں نے مٹھ رکھی۔ ا للہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اداکارہ زیبا بختیار کے والد اور بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار کو جس نے بذریعہ مقدمہ مجھے ہر مہینے ڈیڑھ مہینے بعد کوئٹہ حاضری پر مجبور کر دیا۔ میں لاہور سے کراچی… کراچی سے کوئٹہ جاتا اور پھر اگلے روز ہی عدالت میں پیشی کے بعد کوئٹہ سے اسلام آباد اور پھر اسلام آباد سے لا ہور آتا۔ یعنی ایک رات سے زیادہ گھر سے باہر نہیں لیکن اس جبری ایکسر سائز کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہوائی سفر کا خوف جبراً ہی سہی آہستہ آہستہ پگھلنے لگا۔ گو یہ خوف کسی نہ کسی حد تک اب بھی قائم ہے لیکن پھر بھی اب میں تھوڑا بہت حوصلہ کرلیتا ہوں لیکن قریبی دوستوں کے ساتھ… گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سال میں تین بار انگلینڈ،سکاٹ لینڈ اور جرمنی وغیرہ جاتا ہوں لیکن اس طرح کہ ہر بار دوستوں کا ساتھ تھا اور دوستوں کے ساتھ تو میں کچھ بھی کر گزرنے کی طبیعت رکھتا ہوں۔
ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے دوست
دریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملا
لیکن اس بار سب کچھ آناً فاناً ہوا۔ میں نے دوستوں کو ”رشوت“ بھی آفر کی کہ”اون دی ہاؤس“ لیکن کسی کا ویزا ایکسپائرڈ، کوئی پہلے سے ہی بیرون ملک ،کسی کی کوئی اور ناقابل منسوخ کمٹمنٹ …میں نے چڑ کر تنہا پرواز کا فیصلہ کرلیا کہ دعوت نامہ برٹش کونسل یا قونصل کی طرف سے تھا۔ ایلکمی فیسٹول …(Alchemy Festival)میں ٹیبل ڈسکشن کی دعوت تھی جوچند روز سوچ بچار کے بعد قبول کرلی۔ پاسپورٹ اٹھا کر دیکھا تو معلوم پڑا کہ گزشتہ ویزا تو چند روز میں ہی ایکسپائر ہونے والا ہے سو پھر سے وہی فضول سی ڈرل جس کا سب سے تکلیف دہ مرحلہ بائیو میٹرکس ہے۔ مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہر بار نئے سرے سے فنگر پرنٹس لینا کیوں ضروری ہے کیونکہ ان میں تو تبدیلی ممکن ہی نہیں لیکن بہرحال یہ تو شیر کی مرضی ہے کہ انڈہ دے یا بچہ…دونوں دیدے یا کچھ بھی نہ دے۔ مختصراً یہ کہ میں پانچ دن کے لئے دیار غیر میں ہوں۔ کوشش کروں گا کہ اس دوران ایک آدھ حاضری لگوا سکوں لیکن سفر کے دوران مجھ سے لکھا نہیں جاتا۔ بیرون ملک تو دور میرے لئے تو اندرون ملک سفر کے دوران بھی لکھنا محال ہوتا ہے کیونکہ اپنے مخصوص ماحول سے باہر دماغ ٹھیک سے کام ہی نہیں کرتا کیونکہ میں بنیادی طور پر اک”برا مسافر “ہوں۔ ٹینس قسم کا مسافر ۔
چلتے چلتے پھر وہی بات جو اک خوبصورت کتاب کے اقتباسات کے ذریعہ گزشتہ کالموں میں ہائی لائٹ کی گئی۔ عزت مآب چیف جسٹس افتخار چودھری نے سٹاف کالج کوئٹہ میں افسروں سے خطاب کے دوران اور بہت سی حساس اور اہم باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ……
”جمہوری حکومتیں قانون کی بالا دستی قائم کرنے میں ناکام رہیں“۔یہی تو فساد کی جڑ ہے۔ گزشتہ چار کالموں میں میں نے ملائے کرشنا دھر کی شاہکار تخلیق”گینگ لینڈ ڈیموکریسی“ کے چوندے چوندے ٹوٹے پیش ہی اس لئے کئے تھے کہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ جسے ہم جمہوریت سمجھ کر اپنے سروں پر سوار کئے ہوئے ہیں…اسے جمہوریت کے علاوہ اور کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ جمہوریت پر اتنی بڑی تہمت نہیں لگائی جاسکتی۔
جمہوریت کے بارے میں عموماً کہا جاتا ہے اور بالکل درست کہا جاتا ہے کہ اس نظام حکومت میں”بادشاہ“ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی جبکہ ہمارے ٹائپ کی جمہوریتوں میں”بادشاہ“ نہیں ہوتا بلکہ کئی ”بادشاہ“ ہوتے ہیں۔ یونین کونسل کے چمپو سے لے کر اوپر اور اس سے بھی اوپر تک نااہل ،ظالم اور پشتینی”بادشاہوں“ کی اک فوج ہوتی ہے جو عوام الناس سے سال کے بارہ مہینے مختلف شکلوں میں مسلسل خراج وصول کرتی ہے۔ قانون سازی کے نام پر قانون شکنوں کا انتخابی اجتماع، اسی لئے تو چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑتا ہے……
”جمہوری حکومتیں قانون کی بالا دستی قائم کرنے میں ناکام رہیں“
اور یہ کیسی پتے کی بات ہے کہ تبدیلی سیاست دانوں کے بغیر آ نہیں سکتی اور سیاستدان کسی قیمت پر تبدیلی آنے نہیں دیں گے!۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.