Javed Iqbal

 

حسن نثار“GANGLAND DEMOCRACY”- قسط نمبر 2
چوراہا … حسن نثار
جمہوریت کو بے رحمی بے نقاب کر کے اس کا اصلی اور مکروہ ترین چہرہ ”بگ کلوز“ میں دکھانے والی شہکار کتاب سے چند مزید اقتباسات اس اپیل کے ساتھ کہ بھارتی اور پاکستانی جمہوریت میں حیران کن مشابہت اور مماثلت پر غور ضرور فرمایئے۔ صرف سیاستدان ہی ایک جیسے نہیں، بیورو کریسی بھی ایک جیسی ہے اور ان کے آپس میں رشتے بھی ویسے ہی ہیں… بسم اللہ کیجئے
”اقتدار کے استحکام کی خاطر سیاسی قتل بھی ضروری ہے۔ میری دلیل کی بنیاد مندرجہ ذیل تاریخی واقعات ہیں۔ 1905ء میں بنگال کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم فسادات۔ بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر نے اس آگ کو بھڑکایا پھر 1946ء میں مسلم لیگ کا ڈائریکٹ ایکشن پھر مغربی بنگال میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا کمیونسٹ پارٹی کے خلاف نکسل گروپوں کا استعمال INCP نے اہم سیاسی مخالفین کے خاتمہ کے لئے نکسلیوں کا استحصال کیا تھا کیا INCP نے 1984 میں اپنی ایک بڑی لیڈر کے قتل پر تشدد کو منظم کر کے تین ہزار سکھوں کو قتل نہیں کیا؟ کیا وشال بھارت پارٹی نے رام کی فرضی جنم بھومی پر کھڑی عمارت کو تباہ کرنے کے لئے تشدد نہیں کیا؟
لفظ ”فرضی“ کا استعمال راج کرشنا کو برا لگا اس نے احتجاج کیا۔
یہ فرضی جنم بھومی نہیں تھی ستیسہ … اصلی جگہ تھی
”کیا کسی نے شلیا کو اس جگہ اپنے پہلے بچے کے پیدا ہونے کو دیکھا؟ کیوں اپنے دماغ کو ناکارہ بناتے ہو۔ کسی زمانے میں برہنموں نے بدھوں کے آشرموں کو برباد کیا۔ بعد میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے مندروں کے ساتھ وہی سلوک کیا“
”رام جی ہمارے خدا ہیں“ راج کرشنا نے کہا
”خداؤں نے بھی قتل کئے ہیں۔ رام جی نے بالی کو دھوکے سے قتل کیا۔ قتل سیاست کا حصہ ہے“
”ہندوستانی جمہوریت کے فروغ کے سلسلہ میں قتل کی تازگی اہمیت اور تشدد نے راج کرشنا کو قائل کر لیا۔ پہلی مرتبہ اسے علم ہوا کہ فرانس کا انقلاب، امریکہ کی جنگ آزادی، روسیوں کا عظیم انقلاب اور چین میں ماؤ انقلاب لاکھوں انسانوں کے ڈھانچوں پر استوار اور مستحکم ہوا۔ کوئی بڑی چیز تشدد اور موت کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔“
”تم تشدد اور کرپشن کو تبدیل کرنا چاہتے ہو تو پھر مجھے کیوں تشدد سکھا رہے ہو“؟ راج کرشنا نے پوچھا
”یہ کہلاتا ہے علاج بالمثل۔ گوشت میں چھپے کانٹے کو نکالنے کے لئے کانٹا استعمال کرو، جمہوریت نے تشدد اختیار کیا اور تشدد کے اصولوں کو شکایات کے ازالے کے لئے بطور اوزار استعمال کیا۔ حکمرانوں کو اس طرح اک بڑی پولیس فورس قائم کرنے کا بہانہ مل گیا تاکہ معاشرہ کو جمہوری بوٹوں کے نیچے رکھا جائے نہ کہ پاکستان کی طرف فوجی بوٹوں کے تلے“
”راج کرشنا نے میرے کہنے پر عمل کیا۔ سوچ سمجھ کر مانجھی ذات کے ایک ٹی وی چینل کے نمائندے کو بلا کر ایک
وڈیو کلپ اس کے حوالے کی جس میں اغواء کندگان کو صاف طو رپر دکھایا گیا تھا جو برساتی رام کے وفادار مسلم غنڈے تھے۔ ٹیپ کے ساتھ ایک بھاری لفافہ بھی نامہ نگار کو دیا گیا“ ”پالیٹکس مہماتما کرشن کا ”چکرا“ ہے جو ہر چیز کو کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ پالیٹکس تم کو کشن جی، وشن جی اور شیوا جی جیسا طاقتور بنا دیتی ہے“
”سنو راج کرشن! سیاست اچھل کود کا کھیل ہے۔ لیڈر اور پارٹیاں موٹل کی عورتوں جیسی ہوتی ہیں۔ جب ضرورت ہو انہیں لے لو پارٹیاں بدلنا انڈین ڈیموکریسی کی خصوصیت ہے۔ پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں کے ممبر بھنڈی اور گوبھی کی طرح بکتے ہیں“
”سینئر افسران، ریونیو افسران، کلکٹرز، ایس پی، ڈی ایس پی اور سب سے بڑھ کر تھانیدار ”دائمی حکومت“ کا مغز ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان پر حکومت چند گوروں، سانولوں اور کالوں کے ذریعہ کی۔ سیاستدان موسمی لٹیرے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ انتخابی جمہوریت ہے اس لئے وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارا حق ہے کہ وقفے وقفے سے سیاسی چہرے بدلتے رہیں اور فیصلہ کریں کہ ہم کن لوگوں کو لوٹنے کا حق دیتے ہیں۔ اصل میں ”دائمی حکومت“ ہی حکومت چلاتی ہے۔ تم ان کا تبادلہ کر سکتے ہو، انہیں ڈرا دھمکا سکتے ہو لیکن انہیں ختم نہیں کر سکتے، تم ”دائمی حکومت“ کو سمجھ نہیں رہے۔ یہ انتہائی طاقتور لوگ ہیں۔ یہ ملک چلاتے ہیں۔ اگر تم ایک غریب دیہاتی کی بہبود کے لئے سو روپیہ خرچ کرتے ہو تو بابو کم از کم تیس (30) روپے اپنے حصہ کے تو لے گا ہی“
”الیکشن ہی وہ انجن ہے جو ڈیموکریسی کو چلاتا ہے۔ بغیر الیکشن کے تمہاری حیثیت پاکستان، زمبابوے اور صومالیہ جیسی ہو گی لیکن انجن چلانے کے لئے تمہیں ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہو گی۔“
”بہار INCP کے لئے سیٹوں کا فیصلہ جب ہو جائے تب ڈی جی پولیس اور مقامی آئی بی چیف سے کہو کہ وہ متوقع جیتنے والے آزاد امیدواروں کی فہرست پیش کریں۔ پھر انہیں پرکھو کہ ان میں سے کون زیادہ پیسہ خرچ کر سکتا ہے، اس کے پاس جسمانی طاقت کتنی ہے اور جرائم پیشہ گروہوں تک رسائی کیسی ہے؟“
”بیس بیس لاکھ کے بریف کیس ایک DGP کو اور ایک مقامی IB چیف کو۔ ان کو الگ رکھنا انہوں نے اچھی رپورٹ لکھی تو اضافی وزن ہو گا۔“
”یہ تو بہت بڑی رقم ہے“
”تمہارے اپنے پیسے نہیں۔ ٹکٹ کے ہر خواہش مند سے کہو کہ وہ 20 لاکھ تمہیں ادا کرے۔ اگر 500 درخواست بھی ہوئے تو ایک ارب روپے تمہاری جیب میں سب کو دینے دلانے کے بعد بھی 50 کروڑ سے اوپر بچ رہیں گے“
”سیاست میں 5 کروڑ کی سرمایہ کاری پچاس کروڑ کمانے کے لئے کی جاتی ہے۔ ”جیک پاٹ“ بہار کی وزارت اعلیٰ کی صورت میں تمہارا منتظر ہے“
”عام آدمی کے بارے کیا کہتے ہو؟
”دماغ پر زیادہ زور مت دو۔ عام آدمی پیدا ہوتا ہے۔ کھاتا ہے پیتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے اور مر جاتا ہے۔ تمہیں یہ یقینی بنانا ہے کہ انہیں زندہ رہنے کے لئے کم سے کم میسر ہو اور جب وہ سیلاب، طاعون، زلزلے، ذات برادری کی دشمنیوں یا قانون شکن عناصر کی لپیٹ میں آ جائیں تو انہیں کچھ ریلیف ملتا رہے“
”تمہارا مطلب ہے کہ عام آدمی کے لئے کوئی جگہ نہیں تو پھر یہ سیاست، جمہوریت، آئین سب کیا ہے؟“
”عام آدمی تو اینٹوں کی طرح ہے۔ تم جب سیاست میں اوپر جانے کے لئے زینے بناتے ہو تو ان ہی کی ہڈیوں، ڈھانچوں کو استعمال کرتے ہو۔ عام آدمی وعدوں سے، کبھی کبھی کچھ روپوں سے، چاول گھی چینی کے توڑوں اور مزید وعدوں سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ رامائن، مہا بھارت اور قربانیوں کی شاندار من گھڑت کہانیوں سے خوش… جیسا میں نے کہا کہ انہیں بھوک سے مرنے نہیں دینا۔ بقیہ تمام باتوں کا ذمہ مختلف خداؤں نے لے رکھا ہے۔“ (جاری ہے
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.