Javed Iqbal



میاں نواز شریف جب بھی لانگ مارچ کی دھمکی دیتے ہیں میرے کچھ زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور مجھ جیسے ناسٹیلجیا زدہ آدمی کو ایک پیارا مرحوم بزرگ دوست یاد آجاتا ہے۔ یہ دوست خواجہ سرفراز تھا جو اپنے وقت کا جانا پہچانا فلم ڈائریکٹر تھا۔ ”زندہ لاش“ اور ”اَت خدا دا ویر“ جیسی خوبصورت فلموں کا یہ خالق عمر میں مجھ سے خاصا بڑا، بے حد ذہین اور زندہ دل تھا۔ عمر کا بیرئیر بھی اس نے خود ہی توڑا۔ اک لازوال پنجابی گیت …… ”جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں، میں تھاں مر جانی آں“ بھی خواجہ سرفراز ہی کی فلم کا گیت ہے اور بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس گیت کا یہ مصرعہ بھی دراصل خواجہ سرفراز ہی کی تخلیق ہے۔ 70کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ ہم سب پہ ”کڑکی“ کا زمانہ تھا۔ خواجہ سرفراز اور میرا ایک مشترکہ دوست تقریباً ایک ہی علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ خواجہ سمن آباد اور انور اقبال ٹاؤن میں رہتا تھا۔ دونوں مال روڈ سے پیدل پہلے سمن آباد پہنچتے اور کچھ دیر خواجہ سر فراز کے گھر رک کر ذرا ریسٹ کرتے۔ پھر انور اکیلا آگے روانہ ہوتا تو یاروں کا یار اور وضعدار خواجہ سرفراز انور سے کہتا … ”چلو میں تمہیں ”پیدل ڈراپ“ کرکے آتا ہوں“ خواجہ دو تین کلو میٹر انور کو کمپنی دیتا اور اسے پیدل گھر پہنچا کر خود اکیلا پیدل واپس آتا۔ میری اور خواجہ کی دوستی بھی اس ”پیدل ڈراپ“ والے ایپی سوڈ کے بعد شروع ہوئی کیونکہ اس سے پہلے میں اسے فلمی آدمی سمجھ کر ذ را لئے دیئے رہتا لیکن خواجہ کی اس انوکھی ادا نے مجھے اس کے بارے میں متجسس کر دیا تو علم ہوا کہ خاندانی آدمی ہے اور ایم بی بی ایس ادھورا چھو ڑکر فلم ڈائریکشن کی طرف جا نکلا ہے۔ خواجہ بہت ہی منفرد قسم کا کیریکٹر تھا کچھ عرصہ بعد جب اس نے حالات کے تھوڑا سدھرنے پر سکوٹر خریدا تو ساتھ ہی ”ڈرائیور“ بھی رکھ لیا کیونکہ سکوٹر اسے چلانا آتا نہیں تھا اور سیکھنے پر وہ راضی نہ تھا سو ”ڈرائیور“ سکوٹر چلاتا، خواجہ صاحب پیچھے بیٹھ کر اپنے فیورٹ سگریٹ کے کش لگاتے۔ میں اکثر خواجہ کو چھیڑتا کہ ”خواجہ صاحب! پورے پاکستان میں آپ شاید واحد آدمی ہو جو ”شوفر ڈری ون“ سکوٹر کی سواری سے لطف اندوز ہوتے ہو“۔ جواباً خواجہ کے سرخ و سفید معصوم سے لیکن شرارتی چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل جاتی … چند برس پہلے خواجہ کسی کو ”پیدل ڈر اپ“ کرنے نہیں تن تنہا ملک الموت کے کندھوں پر سوار ہو کر ملک عدم روانہ ہو گیااور جب بھی یاد آتا ہے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو پھیل جاتے ہیں کہ ایسا کوئی نہ پہلے دیکھا نہ بعد میں۔
میاں نواز شریف کے ”لانگ مارچ“ والے ورد کے بعد خواجہ مجھے زیادہ یاد آنے لگا ہے۔ نجانے کیوں مجھے خواجہ سرفراز کے ”پیدل ڈراپ“ اور میاں نواز شریف کے ”لانگ مارچ“ میں بے پناہ مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ شاید اس لئے کہ دونوں ہی انتہائی معصوم اور مضحکہ خیز باتیں یا حرکتیں ہیں، خوبصورت لیکن بے معنی بے تکی۔
”پیدل ڈراپ“… چہ معنی دارد
اور کروڑوں روپے کی بلٹ پروف، ایئرکنڈیشنڈ، پرفیومڈ، جیپ میں بہترین سڑکوں پر شہری علاقوں کے درمیان چند کلو میٹر یا چند سو کلو میٹر کا سفر اگر ”لانگ مارچ“ ہے تو یہ کسی کو ”پیدل ڈراپ“ کرنے سے بھی کئی گنا زیادہ مضحکہ خیز اور بچگانہ سی بات ہے۔ عظیم ماؤزے تنگ… دو جوڑے کپڑے اور دو جوڑے جوتے رکھنے والا عظیم ماؤ اور اس کا حیران کن، جان لیوا، طویل اور خوفناک ”لانگ مارچ“ کہاں اور یہ ”مغلیہ چہل قدمی“ کہاں؟ ماؤ کا مہیب لانگ مارچ پڑھیں، اس میں موت کے گھاٹ اترنے والوں کی گنتی کریں، اس کی طوالت و اذیت کا اندازہ لگائیں اور ان سب پر غور کریں تو حساس آدمی کے لئے سکون کی نیند ناممکن ہو جائے … دوسری طرف یہ ”چاکلیٹ کریم“… ”برگر اور نگٹس“… ”منرل واٹر“ اور ”کیک پیسٹری“ والا فائیو سٹار بلکہ سیون سٹار قسم کا”لانگ مارچ“جو دراصل ”کیٹ واک“ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ماؤ کے لانگ مارچ میں اس نے اور اس کے
جانثار ساتھیوں نے اپنے قریبی ترین خون کے رشتے قربان کر دیئے تھے، یہ بونگ اور برگر نہیں بدترین بھوک کا سفر تھا، یہ پانی نہیں پیاس کا سفر تھا، یہ محفوظ نہیں انتہائی غیر محفوظ سفر تھا۔ یہ ”شارٹ کٹ“ نہیں واقعی ”لانگ“ تھا، یہ اقتدار نہیں سردار کا سفر تھا، یہ خواب نہیں خاک اور خون کا سفر تھا، یہ بازی گری نہیں جان کی بازی کا سفر تھا جبکہ ہم جیسے ”کیٹ واک“ اور ”مارننگ واک“ کو ہی ”لانگ مارچ“ کہے اور سمجھے جاتے ہیں۔ لفظوں کی بے حرمتی نے ہمیں بے حرمت اور ان کی بے عزتی نے ہمیں بے عزت کرکے رکھ دیا۔ ہم نے عظیم اصطلاحوں کو ذلیل و رسوا کیا تو ان کا کچھ نہیں بگڑا، ہم خود ذلیل و رسوا ہوگئے۔ صرف اک ”لانگ مارچ“ ہی کیا، ایک مذہبی جماعت نے مسخروں کی طرح چند ہزار پر مشتمل کارکنوں کے ساتھ ”ملین مارچ“ بھی کیا تھا … اسی طرح وی (v)فار وکٹری کا نشان جو دوسری جنگ عظیم میں چرچل جیسے دانشور، مصور، قلمکار، صحافی، سیاستدان اور سٹیٹسمین نے متعارف کرایا تھا اور کہاں یہ ٹیڑھی میڑھی انگلیوں والے کرپٹ للو پنجو جو بات بات پر وی (v)فار وکٹری کا نشان بنا کر پاکستان اور پاکستانیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں لیکن فی الحال اس گندگی کو علیحدہ رکھتے ہوئے صرف اور صرف اس نام نہاد لانگ مارچ پر فوکس کرتے ہیں جو اصلی لانگ مارچ کے منہ پر بدنما ترین داغ اور گالی سے کم نہیں۔
میاں ماؤ صاحب! خدارا اصلی لانگ مارچ کے بارے کہیں سے سن پڑھ لیں کیونکہ لیڈر دراصل ٹیچر ہوتا ہے اور ٹیچر ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولتا ہے اور پھر کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ کے ساتھ ”لانگ مارچ“ والا میٹریل ہی موجود نہیں۔ یہ تو وہ ”ہیومن میٹریل “ ہے جس نے کہا تھا… ”قدم بڑھاؤ نواز شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں“ اور بقول آپ کے ہی جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ساتھ نہ تھا۔ یہ تو مروا کر ماتم کرنے والوں کا ہجوم ہے تو کیا آپ کو اب بھی ان کی سمجھ نہیں آئی؟
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ایسوں کے ساتھ ”لانگ مارچ“نہیں…”کیٹ واک“ یا صرف ”مارننگ واک“ ہی ممکن ہے۔ آپ کے ”لانگ مارچ“ کی ”شارٹ سٹوری“ صرف اتنی ہے کہ آپ کسی بھی قیمت پر سینٹ انتخابات کے مہینے ”مارچ“ سے پہلے ”لانگ مارچ“ وغیرہ وغیرہ کے ذریعے پی پی پی کی فیصلہ کن برتری سے بچنا چاہتے ہیں چاہے کوئی اور ”مارچ“ ہی کیوں نہ ہو جائے…
میاں ماؤ شریف صاحب! لانگ مارچ مضحکہ خیز ہی نہیں سیاسی فاؤل بھی ہوگا اور ”پیدل ڈراپ“ جیسے اس ”لانگ مارچ“ کے نتیجہ میں کوئی ڈراؤنا قسم کا ڈراپ سین بھی ہوسکتا ہے۔ پہلی جلا وطنی تو ختم ہوگئی تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہو کہ:
”اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں“
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.