Javed Iqbal
صدقے جاؤں… ہمارا بھی کیا حال ہے۔ اپنی فکری اور جذباتی پسماندگی اور کسمپرسی کا اندازہ لگانا ہو تو رکشے کے پیچھے لکھے ہوئے اس”لازوال شعر“ پر غور فرمائیے جو یقینا علامہ اقبال کا نہیں
سر ہے نہ پیر ہے
باقی سب کچھ خیر ہے
کیسی بیہودہ ،فرسودہ منطق ہے کہ معصوم نہتے بچوں، بوڑھوں،عورتوں عام شہریوں پر خود کش حملے…ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں۔ پنجابی زبان میں اک محاورہ بہت مقبول ہے”ڈگیا کھوتی توں غصہ کمہارتے“ یعنی گدھی سے گر کے چوٹ کھانے کاغصہ کمہار پر اتارنا۔ زناٹے دار تھپڑمارا جھارے پہلوان نے…آپ نے ٹانٹ کرادی کوڈو کو۔ امریکہ اور اس کے ڈرون کا تو یہ”ڈارون گروپ“ بگاڑ کچھ نہیں سکتا، غصہ ان لاوارث عوام پراتارو اور ان کو مارو جو بیچارے پہلے ہی مرے ہوئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اور قائد جگ بھائی الطاف حسین نے ایسے سقراطوں، بقراطوں کے بارے جو کچھ کہا، کوئی بھی صاحب دل، صاحب عقل، صاحب ضمیر یہی کہے گا کہ ایسا ردی ردعمل صرف ان کا ہی ہوسکتا ہے جن کی کھوپڑیوں میں بھس اور دلوں میں بغض کے سوا کچھ نہ ہو۔ امریکن حملوں کا انتقام ان عوام سے جو اس کرہ ارض کی مظلوم ترین مخلوق ہیں؟…واہ کیا منطق ہے لیکن یہاں تو پوری مملکت خداداد ایسی ہی منطقوں پر چل رہی ہے۔ میاں نواز شریف جیسا بظاہر منجھا ہوا سیاستدان بھی کمال معصومیت سے ایسی بات کرتا ہے کہ سر گھوم جائے۔ دو دن پہلے میاں صاحب نے بھی ایسی ہی منطق پیش کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے۔
”پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بڑی غلطی تھی۔ خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں“۔
میں نے یہی بات اتحاد سے بھی بہت پہلے ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف کے گوش گزار کی تھی کہ ان کے نزدیک نہ پھٹکنا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بی بی زندہ تھیں اور شریف برادران جدہ سے کوچ کرکے لندن ڈیرہ جماچکے تھے اور چھوٹے میاں فون پر رابطہ میں رہتے تھے ۔ انہیں کہیں کہ تردید کریں…میں نے تو سائیں لوک بی بی سے بھی بچنے کا مشورہ دیا تھا(مانگنے پر کہ میں رضاکارانہ مشورے دینے پر یقین نہیں رکھتا)لیکن یہ زرداری صاحب سے اتحاد تک پہنچ گئے۔ نیا نیا اتحاد تھا جب میں نے مختلف ٹی وی چینلز پر اس کے انجام کی پیش گوئی کی تو ن لیگ کے چمپو اس پر بہت سیخ پا ہوئے۔ عزیزی سعد رفیق نے بھی بہت اچھل کود کی جبکہ آج ان کے قائد خود فرمارہے ہیں کہ”پی پی پی سے اتحاد بڑی غلطًی تھی جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں“
میاں صاحب!یہ خمیازہ نہیں…خمیازے کا مختصر سا دیباچہ ہے، خمیازہ تو ابھی آپ نے بھگتنا ہے اور اس کا اندازہ آپ کو آئندہ الیکشن کے نتائج پر ہوگا جن کی تفصیلات میں جانے کا ابھی وقت نہیں یا رزندہ صحبت باقی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
اچھے خاصے لوگ کیا ہمارے تو ادارے بھی ایسی ایسی منطقوں اور مفروضوں پر زندہ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے لیکن کوئی کیا کرے کہ جب دلوں پر قفل اور عقلوں پر دبیز پردے پڑجائیں تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ برا وقت آئے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ خود زمین پر آکے کسی کو مارے…وہ صرف مت ماردیتا ہے جس کے بعد سب کچھ مارا جاتا ہے جیسے ایک کے بعد دوسرے شہر کی انتظامیہ کی مت ماری جارہی ہے۔
لاہور میں تجاوزات کے خلاف مہم یا آپریشن مضحکہ خیز انجام سے دو چار ہوا اور اب کہ اس”اگا دوڑ تے پچھا چوڑ“ آپریشن کا وائرس دوسرے شہروں میں دھوم مچارہا ہے ۔ضلع بہاولنگر کی انتظامیہ کا اشتہار میرے سامنے ہے جس کا ڈرافٹ شاید”مولا جٹ“ کے سکرپٹ رائیٹر ناصر ادیب سے تیارکرایا گیا ہے۔ نتیجہ اس کا بھی وہی نکلے گا جو لاہور میں نکلا کہ یہ سارے کا سارا نظام گزشتہ تریسٹھ سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے جسے عوامی زبان میں”تھک تھگڑی“ کہتے ہیں یعنی ہر کام وقتی، عارضی ،نمائشی اور ڈنگ ٹپاؤ۔
سیاسی، معاشی، انتظامی و دیگر ہر شعبہ میں مضحکہ خیز منطقیں، مجہول مفروضے اور ایسی ہی”تھک تھگڑیاں“ ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟
کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہے انتظار فرمائیے!
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.