Javed Iqbal

 

سیاسی کے ساتھ کچھ اقتصادی کرتب بھی… چوراہا … حسن نثار

سیاسی کے ساتھ کچھ اقتصادی کرتب بھی… چوراہا … حسن نثار
جب آصف زرداری صاحب نے ٹیک اوور کیا تو میں نے اسی کالم میں عرض کیا تھا کہ بی بی بے نظیر بھٹو کا معاملہ بھی اور تھا ان کی دنیا بھی اور تھی، پس منظر، اٹھان، تعلیم اور تربیت بھی کچھ اور قسم کی تھی لیکن اب سلسلہ ذرا مختلف ہو گا کیونکہ مستقبل میں ”گوالمنڈی“ کا مقابلہ ”بمبینوسینما“ کے ساتھ ہو گا۔ اب زرداری صاحب جب کوئی نیا کارڈ کھیلتے ہیں، ہیٹ سے کوئی نیا کبوتر یا خرگوش نکالتے ہیں، کوئی نئی چال چلتے ہیں تو مجھے میرا وہ کالم یاد دلا کر پوچھتے ہیں کہ تم نے یہ بات کس بنیاد پر کی تھی تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ اک خاص کلچر کا مقابلہ اک خاص قسم کے کلچر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ”آکسفورڈ“ اور ”ہارورڈ“ جتنے بھی قابل ہوں… سٹریٹ سمارٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بڑے سے بڑے ادارے بھی ”تھڑے“ کا توڑ نہیں کر سکتے۔ اب اگر ن لیگ سے جاوید ہاشمی جیسا اہم اور مرکزی رہنما بھی یہ کہتا ہے کہ آصف زرداری کی سیاست سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی تو کم از کم مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ ایک مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ لچک نام کی کوئی شے ہی موجود نہیں، دوسرا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ فیصل صالح حیات تک کو بھی اکوموڈیٹ کر لیا۔ مجھے وہ پرانی اخباری خبر آج تک نہیں بھولی جس کے مطابق آصف زرداری بطور قیدی اور فیصل صالح حیات بطور وفاقی وزیر ایک ہی فلائٹ میں اکٹھے ہو گئے۔ فیصل نے آگے بڑھ کر گرمجوشی کے ساتھ آصف زرداری سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو ”قیدی“ آصف زرداری نے حقارت کے ساتھ منہ پھیر لیا۔ زخم خوردہ قیدی کے لئے وہی رویہ درست تھا جبکہ ”صدر مملکت“ کے لئے اتنی ہی کشادگی زیب دیتی ہے۔ مجھے اس پر بھی قطعاً کوئی تعجب نہ ہو گا اگر کل کلاں اویس لغاری بھی ”انکل“ زرداری کے پہلو میں پایا جائے۔ ادھر یہ ہیں جو سر کٹے چکن کی طرح کنفیوژ ہو کر با جماعت ممتاز بھٹو کے پاس جا پہنچے جسے زیادہ سے زیادہ سندھ کا غلام مصطفی کھر کہا جا سکتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ سے کسی نے ان کی کامیاب سیاسی زندگی کا راز جاننا چاہا تو فرمایا ”اگر میرا کسی وحشی بدو کے ساتھ تعلق بن جائے اور اس کے میرے درمیان کچے سوت کا دھاگہ ہو اور وہ تیز رفتار ترین اونٹنی پر بیٹھ کر اسے صحرا میں بھگا دے تو میں وہ کچے سوت کا دھاگہ بھی کسی قیمت پر ٹوٹنے نہیں دو ں گا۔“
یہ ہے ہیومن میٹریل کی ہینڈلنگ کا صحیح طریقہ اور کمان جیسی لچک اور جہاں تک تعلق ہے ہماری سیاسی اخلاقیات کا تو ووٹر سے لے کر سپورٹر اور لیڈر تک کا سیاسی کلچر… سیاسی اقدار، سیاسی معیار، سیاسی اطوار ہمارے سامنے ہیں اور نیم خواندہ لوگ بھی اس مقبول انگریزی محاورے کے قائل ہیں کہ “AT ROME, DO AS THE ROMANS DO”
نصابی، کتابی باتیں، بھاش اور قصے کہانیاں اپنی جگہ بیرحم زمینی حقائق اپنی جگہ کہ ہم کیا، پوری تیسری دنیا میں سیاسی کھیل کے قواعد و ضوابط ہی یہ ہیں کہ کوئی قاعدہ ضابطہ نہیں… ہماری سیاسی اخلاقیات ہی یہ ہے کہ کوئی اخلاقیات نہیں اور سیاسی اصول ہی یہ ہے کہ کوئی اصول نہیں تو پھر زرداری صاحب سے ”صالحانہ سیاست“ کی توقع کیونکر؟ یہ ہماری سیاسی جماعتیں ہیں ایدھی ویلفیئر سنٹر نہیں لیکن کمال یہ ہے کہ اس حمام میں سب ستر پوش ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نہ باز آتے ہیں نہ شرماتے ہیں اور تو اور شاہ محمود قریشی بھی ”بھٹو بننے کے چکر میں ہے لیکن قریشی صاحب کی ”جیالا گیری“ پر پھر کبھی کہ فی الحال تو مجھے زرداری صاحب کی کامیاب سیاسی بازی گری پر انہیں داد دینا ہے کہ اب تو ان کے جانے کی تاریخیں دینے والوں کی چیخیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں لیکن کیا یہ سب انہیں بہت دیر اور بہت دور تک لے جانے کے لئے کافی ہو گا؟
سیاسی کرتبوں، تیزیوں، طراریوں اور پھرتیوں میں سے کچھ وقت نکال کر اقتصادی حالات کی تبدیلی کے لئے بھی کوئی جگاڑ؟ کوئی تگڑم؟ کوئی بازی گری؟ کہ اقتدار میں آ جانا اور پھر ان حالات میں قائم رکھنا بے شک کمال ہے لیکن کافی ہرگز نہیں کیونکہ عام آدمی کی حالت مہینوں یا دنوں نہیں… گھنٹوں کے حساب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سیاسی کرتبوں کے ساتھ ساتھ کچھ اقتصادی کرتب بھی دکھائیں… اپنی ”مخصوص تخلیقی صلاحیتوں“ کو معیشت کی بہتری کے لئے بھی کام میں لائیں۔ چار اقتصادی سیانوں کے ساتھ بھی سر جوڑ کر بیٹھیں ورنہ ہر ہفتہ بعد قیمتوں میں اندھا دھند اضافے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ جائے گی۔ پٹرول 4.85، ڈیزل 4.42 اور مٹی کا تیل 5.60 روپے فی لیٹر مہنگا جو ہر شے کی قیمت کو بری طرح متاثر کرے گا اور اوپر سے ہمارا کردار… گزشتہ سے پیوستہ روز شام کو شوکت خانم کینسر ہسپتال کی ایک تقریب سے واپسی پر میں ملتان روڈ کے چار پٹرول پمپوں پر رکا، سب کا ایک ہی جواب تھا ”ڈیزل نہیں ہے“ پانچویں پٹرول پمپ سے جواب ملا ”ایک ہزار سے زیادہ کا نہیں دے سکتے۔“ جیپ میں تو ہزار روپے کے ڈیزل سے سوئی ہلتی تک نہیں میں نے وجہ پوچھی تو ٹی وی سٹار ضیاء خان جو میرے ساتھ تھا نے بتایا کہ … ”قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے اس لئے پٹرول پمپ والوں نے ہاتھ کھنچا ہوا ہے“ یہ استحصال اور اخلاق باختگی کی انتہاء ہے لیکن کیا کریں کہ یہی کچھ ہے یعنی حکومت اور اس طرح کی مکروہ اور مجرمانہ ذہنیت عوام کو زندہ درگور کرنے پر تلی ہے تو یہ دوہرا تہرا ظلم کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟ صدر زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ ساتھ اقتصادی جوڑ توڑ اور کرتب بھی دکھائیں ورنہ ٹرم پوری ہو بھی گئی لیکن ”عوامی حکومت“ کا بھرم ہی جاتا رہا تو فائدہ؟؟؟
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.