Javed Iqbal
 
 
 
مکروہ ترین مناظر کے لامتناہی سلسلے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک لرزا اور دہلا دینے والا منظر ، کہیں بے گناہ ملکی مار دیا کہیں نہتے غیر ملکی مار دیئے، ہاتھ جوڑ کر آنسوبہاتے ہوئے زندگی کی بھیک تو کوئی بدترین دشمن بھی مانگے تو شاید غیظ وغضب میں ڈوبا ہوا آدمی بھی ایک بار سوچ میں پڑ جائے لیکن یہاں تو ایسی وحشت طاری ہے کہ الامان الحفیظ … یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دیکھے ہاتھوں نے اندر چھپے درندے کھول دیئے ہوں ۔ ایک دو منظر تو ایسے ہیں کہ دھیان میں آتے ہی ان سے پیچھا چھڑانے کیلئے باقاعدہ سر جھٹکنا پڑتا ہے ۔ اس کیفیت سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے کی مختلف کوششوں کے دوران میں بہت دور نکل گیا… اک ایسے پاکستان کی طرف جانکلا جو اب دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ لڑکپن میں اک گیت سنا کرتے تھے جس کے بول کچھ یوں تھے ۔
میں تم سے دور چلی جاؤں گی
تم مجھ سے دور چلے جانا ناں
بات ایک ہی ہے لیکن کتنی نازک اور دردناک آج عمر کے اس حصہ میں سوچتا ہوں کہ وہ والا پرسکون پاکستان ہم سے دور چلا گیا یا ہم اس پرامن و امان پاکستان سے دور نکل آئے ؟ اور کہیں یہ المیہ تو نہیں بیت چکا کہ وہ پاکستان بھی ہم سے دور ہو چکا اور ہم بھی اس سے دور نکل آئے ؟ بدصورت منظروں نے خوبصورت مناظر کو مکمل طور پر ایکلپس کر دیا ہے، دھماکوں کی آوازیں دھیمی آوازوں کو زندہ نگل رہی ہیں۔
بہت دن ہوئے …مدتیں بیت گئیں…زمانے گزر گئے میں نے کسی خاتون کو سلائیاں ہاتھ میں اڑسے سوئیٹر بنتے نہیں دیکھا۔ ارد گرد رنگ برنگی خالص اون کے گولے جادوگر انگلیوں میں کیسے روپ بدلتے تھے ۔ تب فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ بی بی کی زبان تیز چل رہی ہے یا انگلیاں ۔
اور اس منظر کو تو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ بچے کیسے انہماک اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنی اپنی چوبی تختیاں تیار کیا کرتے تھے ۔ گاچنی ملی جاتی اور موڈ بنتا تو تھوڑی سی گاچنی چکھ بھی لیا کرتے تھے جو چاکلیٹ سے کم مزہ نہ دیتی ۔ برف کے بلاک سے زیادہ ہموار ان تختیوں پر اپنے ہی تراشے ہوئے سرکنڈے کے قلم سے لکھنا کیسا سنسنسی خیز تجربہ ہوتا تھا ۔ اب تو ہر بچہ جیسے پیدا ہی کمپیوٹر کے سامنے ہوا ہو۔ یہ شیخ چلی کا نہیں …ڈورے مون “ اور ”نووی تا “ کا عہد ہے ۔
آنکھیں بند کئے ماشکیوں کو ”تروں کے “ دیتے دیکھتا ہوں تو چاروں جانب سے بند ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بھی مٹی کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے جو بارود کی بدبو کے برعکس زندگی کی نشانی ہے ۔ صدیاں بیت گئیں نہ ہی کسی کنویں میں ”بوکا “ ڈالا اور پانی نکالا ہے اور نہ ہی کسی کنویں میں وہ عجیب سا پاؤڈر ڈالا ہے جسے شاید لال دوائی کہتے تھے ۔
پینجے کو روئی دھنکتے دیکھنے کی خواہش جاگی تو اس کی وہ آواز کانوں میں گونجنے لگی جو کسی بھی ساز کی آواز سے زیادہ سریلی اور پراسرارتھی۔
اور یہ منظر بھی کسی مول ملتا دکھائی نہیں دیتا کہ فلم کا پہلا شو ہے ۔ بلیکیا سردھڑ کی بازی لگا کر ایک سے زیادہ ٹکٹیں حاصل کرنے کے بعد ایک اپنے لئے بچا کرباقی ”بلیک “ میں بیچ رہا ہے اور اس سلسلے میں سارے ”مذاکرات“ سرگوشیوں میں ہو رہے ہیں۔ وہ کتنے معصوم بلیکیئے تھے جبکہ آج کے یہ ”بلیک لیبل معززین “ …” بیچ ہی کھاویں جو یوسف سا برادر ہووے “ یوسف کے بھائی کیا کہ یہ تو ملک بھی بیچ کھائیں تو ان کے پیٹ نہیں بھرتے ۔
اک اور منظر جسے اپنے ایج گروپ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شیئر بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ بہت دن ہوئے … بہت سال بلکہ عشرے ہوئے میں نے سونے کے دانت والا کوئی آدمی نہیں دیکھا… اب تو جسے دیکھو ہاتھی کے دانت والا کیس ہے کہ کھانے کے اوردکھانے کے اور !
کبھی بغیر بارود کے ”کیٹ واک کلچر “ سے محروم پاکستان میں چٹیاؤں والی لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور ان کیلئے ایسے معصوم سے گیت بھی لکھے گائے جاتے تھے ۔
”مائے میریئے نی مینوں بڑا چا
تے دو گتاں کر میریاں“
کبھی کہیں چراغ جلتے نہیں دیکھا
کوئی چرخہ کاتتے دکھائی نہیں دیتی
کوئی چکی نہیں چلاتا
چراغوں کی جگہ انسان جلتے ہیں
سوت کی بجائے انسان کاتے جاتے ہیں
چکی کی جگہ کلاشنکوف ، راکٹ اور ڈرون چلتے ہیں۔
کبھی کسی بچے کو لٹو بلکہ ”لاٹو “ چلاتے اور بھمبیریوں سے کھیلتے نہیں دیکھا ۔
کبھی کسی کو کروشیا کرتے نہیں پایا اور یہ جان کر تو دل ہی بیٹھ گیا کہ اب تو کروشیا کی سوئی بننا بھی بند ہو گئی … کسی گڈی گڈے کی شادی میں شرکت کا موقعہ نہیں ملا اور نہ ہی کبھی کسی گھر میں پنیاں، وڑیاں اور مونگچیاں بنتے دیکھی ہیں۔
بہت دن ہوئے … گولے، بارود، دھماکوں، لاشوں اور حملوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا !
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.