Javed Iqbal
رات کی نبضیں ڈوب چکی ہیں، اک اور دن پاکستانیوں کے زخمی سینوں پرمونگ دلنے کے لئے طلوع ہورہا ہے۔ مختلف مافیاز کے محاصرے میں بھوکے پیاسے ہم وطنوں کے لئے سورج سوا نیزے پر ہے اور ہر شہر عملاً ہیرو شیما ناگا ساکی بن چکا ۔
شوگر مافیا، سیمنٹ مافیا، قبضہ مافیا، سیاسی مافیا، آٹا مافیا، انتظامی مافیا،بھتہ مافیا، اغواء برائے تاوان مافیا، ڈرگ مافیا، کھاد مافیا، مذہبی مافیا،لبرل مافیا، این جی او مافیا اور اب پرائیویٹ سکولز مافیا یعنی ان گنت بھوکے بھیڑئیے ہر طرف سے پاکستانیوں کو بھنبھوڑرہے ہیں…نچوڑ رہے ہیں، نوچ رہے ہیں اور ان کا رہا سہا لہو چوس رہے ہیں جبکہ جائے پناہ کہیں نہیں اور اگر کہیں ہے تو اس پر بھی سورج سوا نیزے پر آچکا۔
سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا اور اگر اب بھی کچھ بچانا اور سمیٹنا چاہتے ہو تو دعا مانگو…کوشش کرو کہ مرکز اور صوبائی سطح پر ہی نہیں…ضلع اور تحصیل کی سطح تک بھی ہر جگہ پر ہمیں ایک ایک حجاج بن یوسف نصیب ہو جو مافیاز کی عبائیں ہی نہیں پیٹ بھی پھاڑ کے رکھ دے کہ کسی بڑی بلکہ بہت بڑی اکھاڑ پچھاڑ کے بغیر عوام کی اس وحشیانہ چیر پھاڑ کا خونی کھیل ختم نہیں ہوگا…ان آدم خور مافیاؤں سے معصوم اور مظلوم عوام کی گلو خلاصی نہیں ہوگی۔
خدا جانے عوام کے اس ننگے استحصال ،توہین، تذلیل اور بلیک میل پر”غیرت گروپ“کی غیرت کیا پی کر کہاں سوتی اور ایٹمی خراٹے لیتی ہے؟ انہیں ملکی ساورنٹی کے دورے تو پڑتے ہی رہتے ہیں حالانکہ یہ ”چیاؤں چیاؤں“ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جبکہ عوام کی سا لمیت پر انہیں بے حسی کا ناگ سونگھ جاتا ہے جبکہ یہاں ان کا چیخنا چلانا نتیجہ خیز بھی ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو ریلیف مل سکتا ہے۔
غیرت کے علم اور الم بردارو کیا یہ بے غیرتی کی انتہا نہیں کہ ایک مسلمان ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو ناپاک دودھ ملے؟مریضوں کو جعلی دوائیں ملیں؟کھانے کی99فیصد اشیاء میں ملاوٹ ہو…تمہاری غیرت کبھی اس حقیقت پر غور کیوں نہیں کرتی کہ اس”ساورن ملک“ میں چنے کی دال مہنگی اور بیسن سستا کیسے ہوتا ہے؟گھر کے اندر بھی غیرت کھانا سیکھو ورنہ بین الاقوامی برادری میں اس جنس بے معنی کو ٹکے ٹوکری سمجھو … سامراج سے ضرور لڑو لیکن جو”سامراج“اندر موجود ہے…جو کینسر اور مافیا اندر سے ہمیں کھوکھلا کررہا ہے …کبھی ان کے خلاف بھی تو اپنی زنگ آلود تلوا ریں بے نیام کرو… پڑھو اسے اور پھر سفید پوش والدین کی اذیت اور دکھ درد بھی محسوس کرو… متمول غیرت مندو! ذرا تصور کرو اس ماں اور باپ کا جو اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولادوں کو نجی سکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔ خبر کی سرخی اور ایجوکیشن مافیا کی بدمعاشی پر بھی”ڈھائی فیصد“غیرت کھا کر اپنی غیرت کی زکوةٰ نکالو۔
”نجی سکولوں نے تین ماہ کی فیسیں ایڈوانس مانگ لیں، والدین پریشان“
500روپے کی دھڑی(دھڑی میں 5کلو ہوتے ہیں ) خرید کر 500ر وپے کلو بیچنے والوں پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں تو پرائیویٹ سکولز کی”انڈسٹری“ میں تو اکثریت بااثر خاندانوں کی ہے…ان کے خلاف نہ غیرت مندوں کے قلم اٹھتے ہیں نہ ضرورتمند این جی او مارکہ سول سوسائٹی کے قدم حرکت میں آتے ہیں۔
کیا تمہارے نزدیک یہ ایشو کوئی ایشو ہی نہیں یا تم ان مافیاز کے ٹشو پیپرز ہو جو اندرون ملک سامراج سے ٹکرانے پر آمادہ نہیں کہ دور بیٹھے ہوؤں کے لئے یہ نر بچے پاس پڑوس کے عفریتوں کے لئے دم ہلاتی مادائیں ہیں…کہ پرائیویٹ سکولز مافیا تمام مافیاؤں کی ماں بن چکا ہے تو تم سب کہاں ہو۔
……کیا تم میں سے کسی کا بیٹا کبھی جہادی بنا؟ مجھ سے پوچھو کہ بھونکنا بہت آسان اور کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے تو ڈرامہ گیری بند کرکے مظلوم عوام کے اصلی اور اندرونی مسائل کی طرف آؤ… امریکہ اور تمہاری نام نہاد”بھکاری ساورنٹی“ کا تو معاملہ ہی الگ ہے کہ…”منہ کھائے تے اکھ شرمائے“ لیکن کیا تم اس قابل بھی ہو کہ اپنے ہم وطنوں کی ”ساورنٹی“ کو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کی یلغار اور مار دھاڑ سے ہی بچا سکو؟
پرائیویٹ سکولز مافیا ہماری آئندہ نسلوں کی نیلامی میں مصروف ہے اور تم؟ اس غیرت گروپ میں صرف ایک ڈیڑھ نام ہے جسے میں مدد کے لئے پکار سکتا ہوں۔
عرفان صدیقی! تھوڑا تھوڑا انصار عباسی کہاں ہو تم اور تمہارے غیرتانہ خیالات؟ تمہاری آئندہ نسلوں کی خرید و فروخت کا فحش کاروبار تمہاری ناک کے نیچے جاری ہے۔ سیاہ بخت بچوں کے سفید پوش والدین کو سرعام لوٹا جارہا ہے اور تمہاری غیرتیں گہری نیند سو رہی ہیں تو چیختے چلاتے، پکارتے کیوں نہیں؟
غیرت مند اتنے بے حس نہیں ہوسکتے کہ سپر پاور سے بھڑنے کے مشورے دیتے دیتے”مقامی سپر پاورز“ کے سامنے سپر انداز ہوجائیں۔
اور کوئی ساتھ دے نہ دے…مجھے اپنے عرفان صدیقی پر پورا اعتماد ہے کہ اگر اسے میری یہ دہائی، یہ چیخ ،یہ احتجاج مبنی بر میرٹ محسوس ہوا تووہ اس ہاری ہوئی جنگ میں میرے ساتھ ہوگا۔
میرا دکھ یہ ہے کہ میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ہینڈ تو ماؤتھ سفید پوش والدین اس ایجوکیشن مافیا کا کیا کریں؟ کہ حکومتوں سے تو اتوار بازار میں قیمتیں کنٹرول نہیں ہوتیں، کاش ہم سب خود کو محدود آمدنی والے والدین کی جگہ پر رکھ کر ان کا کرب اور بے بسی محسوس کرسکیں۔
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.