Javed Iqbal

دنیا کا کوئی شو، کوئی کھیل، ڈرامہ، فلم، تماشہ، قصہ ایسا نہیں جس کا کلائیمکس نہ ہو، جو اپنے انجام کو نہ پہنچے۔ پردہ اٹھتا ہے تو اسے گرنا بھی ہوتا ہے… جہاں ”اوپنگ“ ہوتی ہے وہاں ”کلوزنگ“ بھی لازمی ہے سو پاکستان میں آگ اور خون کا، بم اور بارود کا، ہلاکت اور شہادت کا جو سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے اسے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ختم تو ہونا ہی ہے لیکن کس قیمت پر؟ جب تک یہ رکے گا تب تک ہم کتنا کچھ اور کیا کیا کچھ گنوا چکے ہوں گے؟ اس پر مکمل یکسوئی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ میں اپنی ذہنی و فکری استطاعت کے مطابق ہر امکانی سچوئشن پر غور کر چکا ہوں اور انتہائی اذیت ناک سچائی یہ ہے کہ کوئی ایک امکان بھی ایسا نہیں جسے آپ کے ساتھ شیئر کرنے کی ہمت اور جرأت موجود ہو۔
ہر ممکن منظر نامہ کو سامنے رکھتے ہوئے جب میں اسے اپنی اشرافیہ کے ”رویوں“ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہوں تو ہر منظر مزید کئی گنا ڈراؤنا اور بھیانک دکھائی دیتا ہے۔ اگر اس ملک کے لیڈران نے اپنے ”اصل اثاثے“ اور ”حقیقی دولت“ بیرون ملک ”محفوظ“ کرنے کو ترجیح دی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ ملکی معاملات کے حوالہ سے بات کریں تو ان لوگوں سے زیادہ ”باخبر“ اور ”با علم“ کوئی نہیں کہ انہیں صرف ملکی ہی نہیں بین الاقوامی حالات اور سمت کا بھی ہم سے کئی گنا زیادہ بہتر اندازہ ہے سو اگر ان مگر مچھوں نے اپنا سب کچھ بیرون ملک منتقل کر رکھا ہے اور دن رات طعنوں کے باوجود بے غیرتی اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنے ان فیصلوں پر قائم ہیں تو اسے کیا سمجھا جائے؟ عقل مندوں کے لئے صرف اتنا اشارہ ہی بہت ہے۔
یہاں یہ بات بھی پوری طرح دھیان میں رہے کہ اگر ان کے اربوں کے اثاثے پاکستان میں بھی دکھائی دیتے ہیں تو ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ جو ”کاروباری اثاثے“ ہیں ان کی حالت و حیثیت اس محاورے کے عین مطابق ہے کہ … ”جس کے جوتے اسی کا سر“ کہ یہ عموماً بنیادی طور پر بینکوں کا پیسہ ہے اور اپنا سرمایہ کب کا نکال چکے سو کل کلاں ہاتھ اور پلا جھاڑ کر کسی چارٹرڈ فلائٹ میں نکل بھی جائیں تو ان کا کچھ نہیں جاتا۔ دوسری قسم ہے غیر کاروباری یا یوں کہہ لیجئے ”ذاتی اثاثوں“ کی مثلاً 5,10 کروڑ کا گھر ہے تو یوں سمجھیں یہ بھی اکثر و بیشتر بطور کولیسٹرل بینکوں کے پاس ہی ہوتا ہے اور وارداتیئے اس پر بھی پراپرٹی کی حقیقی قیمت سے کئی گناہ زیادہ قرض لے چکے ہوتے ہیں۔ واردات کی وضاحت کے لئے یوں سمجھ لیں کہ میرے پاس سو روپے مالیت کا گلدان ہے۔ میں نے اپنے اثر و رسوخ اور ملی بھگت سے ”بینک اے“ میں اس کا تخمینہ ڈیڑھ سو روپے لگوا کر ”فرسٹ چارج“ میں سوا سو روپیہ وصول لیا اور پھر یہی گلدان ”سیکنڈ چارج“ میں ”بینک بی“ میں رہن رکھ کر وہاں سے بھی سو روپیہ وصول کر لیا یعنی سو روپے مالیت کے گلدان کو رہن رکھ کر سوا دو سو روپیہ کل حاصل کر لیا۔ یہ سوا دو سو روپیہ بھی میرے قبضہ میں جسے چاہوں تو بیرون ملک سمگل کر دوں اور گلدان بھی میرے تصرف میں… کل کلاں گلدان ٹوٹ جائے تو بینک کا، بچ رہے اور عدم ادائیگی کی صورت بینک اس پر قبضہ کر لے تو بھی میرا کیا جاتا ہے کہ میں تو کب کا سو روپے والے گلدان کا سوا دو سو روپیہ کھرا کر چکا ہوں۔
میں نے بہت ہی کروڈ، سادہ اور سلیس طریقہ سے یہ مثال عرض کی ہے تاکہ عام قاری کو کچھ نہ کچھ اور تھوڑا بہت اندازہ تو ہو سکے کہ ان کے لیڈران کے اندرون ملک موجود اثاثوں کی اصل حقیقت کیا ہے ورنہ یہ کھیل ذرا پیچیدہ ہوتا ہے۔ انڈر انوائسنگ اوور انوائسنگ، اربوں روپے کی ڈیوٹیوں کی ٹمپرنگ ”رشیدہ کی کشیدہ کاری“ سے کم نہیں۔
دوسری طرف اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ان کے یہاں موجود اثاثے ”جینوئین“ ہیں تب بھی ان کی حیثیت ان اثاثوں کا عشر عشیر بھی نہیں جو ان غیر ملکوں میں موجود ہیں جنہیں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ دن رات گالیاں دیتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا… جن لیڈران کا سب کچھ ہی پاکستان سے باہر ہے، پاکستان کے مستقبل پر ان کا ایمان متزلزل یا غیر متزلزل؟ اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں اور یہ بھی سوچ لیں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.