Javed Iqbal

بلا عنوان…چوراہا …حسن نثار

سچ ہے کہ ساتھی سفر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مجھے قطعاً اندازہ نہیں کہ ان چار دنوں میں مجھے کتنے گھنٹے اور کتنے کلو میٹر پیدل چلنا پڑا کہ ایک تو غازی صلاح الدین کا ساتھ اوپر سے دریائے ٹیمز کا کنارا۔ مجھے اپنے اس ”لانگ مارچ“ کا اندازہ اس وقت ہوا جب قدم اٹھانا محال نہیں ناممکن ہوگیا۔محاورتاً نہیں حقیقتاً پاؤں زخمی ہوچکے تھے لیکن یہ آبلہ پائی بھی آوارگی کا رستہ نہ روک سکی۔ فوری ریلیف کے لئے میں نے شوز کو سلیپر بنا کر قریبی ترین شو شاپ تک پہنچنے کا فیصلہ کیا تاکہ جوگرز خرید سکوں۔ اس سے پہلے کہ میں90پاؤنڈز کا فضول سا جوگر خرید لیتا۔”جیو کتاب“ فیم غازی صلاح الدین نے مجھے جبراً روک دیا کہ اس جوتے کے لئے اتنی رقم خرچ کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے۔ مجھ میں اختلاف تک کی سکت نہ تھی لیکن اصل ہاتھ یہ ہوا کہ جاگرز خریدنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا کیونکہ چھالوں کے سبب جاگرز پہن کر چلنا بھی اتنا ہی اذیت ناک ثابت ہوا یعنی فیصلہ تو ٹھیک تھا لیکن”ٹائمنگ“ غلط تھی۔ پیدل آوارگی شروع کرتے ہی جاگرز خرید لیتے تو بہتر تھا لیکن اب سب بیکار کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا تو اپنے منہ پر ہی مارا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اچھے خاصے شوز کو سلیپر بنا کر ہی چلتے رہے۔ میزبانوں نے اپنے تمام مہمانوں کوسٹر ینڈ پیلس(Strand Palace)ہوٹل میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا تھا۔ اس ہوٹل کا آگا پیچھا تو میں نہیں جانتا لیکن اس کے عین سامنے وہ عظیم تاریخیSAVOY HOTELتھا جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران تاریخ ساز شخصیات اکٹھی ہوتی رہیں۔
سٹرینڈہوٹل سے الکیمی فیسٹول(ALCHEMY FESTVAL)والی جگہ تک پہنچنے کے لئے بارہ پندرہ منٹ کی واک تھی۔ ہوٹل سے نکل کر چند قدموں کے بعد دریائے ٹیمز کے اوپر واٹر لو برج سے گزرتے اور اس دریا پر لکھی شاعری یاد کرتے ہوئے آدمی ملکہ ایلزبتھ ہال تک پہنچ جاتا ہے۔ یہیں ساؤتھ بنک سنٹر(SouthBank Center)میں ہی تسنیم سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا…”کہاں سے ہو؟“ ”انڈیاسے“ …”میرا مطلب تھا کس شہر سے ہو؟“ …”حسن صاحب!ہم تو بمبیا ہے“۔ بمبئی کے رہنے والوں کو بمبیا کہتے ہیں جیسے دہلی والوں کو دلی وال، میں نے الکیمی کا پس منظر جاننا چاہا تو بولی یہ کیمسٹری سے ہے، مطلب اک ایسا پراسیس جس سے گزر کر سونا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ میں نے کہا تسنیم !کیا تم جانتی ہو کہ صرف ایک ایلیمنٹ کی کمی سے پارہ پارہ رہ جاتا ہے اور سونا نہیں بن پاتا۔الکیمی فیسٹول دراصل برطانیہ، انڈیا اور دیگر ساؤتھ ایشین ممالک کے کلچرز کا متنجن سمجھ لیں جس میں رقص، ادب، فلم، فیشن، موسیقی، ڈر امہ اور مباحثہ وغیرہ شامل ہیں۔ برٹش کونسل کی خواہش اور کوشش ہے کہ اس میں پاکستان کو بھرپور نمائندگی کا موقع فراہم کیا جائے۔ پاکستان کے کردار کو بڑھاوا دیا جائے۔ اس کار خیر کے لئے میرا اور خالد احمد کا انتخاب ہوا۔ خالد صاحب نے بوجوہ معذوری ظاہر کی تو میزبانوں کا اگلا”ٹارگٹ“ غازی صلاح الدین تھے۔ سو یوں ہم دونوں ہم سفر قرار پائے۔ اچھی انٹلکچوئیل ایکسر سائز تھی۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے سٹائل میں بھرپور طریقے سے اپنا کیس پیش کیا۔ دو ڈھائی سیشنز کے علاوہ باقی سارا وقت”لانگ مارچ“ میں گزرا۔موسم مہربان رہا نہ چبھنے والی چمکدار دھوپ میں کبھی پکاڈلی کبھی ٹریفالگر سکوائر تو کبھی ویسٹ منسٹرایبے کا طلسم ہوشربا قبرستان، بہت تھک جاتے تو کہیں بیٹھ کر کچھ دیر سستا لیتے یا کسی کافی شاپ کے باہر کافی پینے بیٹھ جاتے۔ اک دھاتی مجسمے کی چھاؤں میں کچھ دیر رکے تو دیکھا جلی حروف میں مونٹی (MONTY)لکھا تھا۔ تفصیلا پڑھی تو معلوم پڑا کہ یہ فیلڈ مارشل منٹگمری کا مجسمہ ہے، وہی فیلڈ مارشل منٹگمری جس نے دلیر جرمن صحرائی لومڑ جنرل رومیل کا مقابلہ کیا تھا اور پاکستان کے ایک شہر ساہیوال کا نام تبدیل کرکے اسی کے نام پر منٹگمری رکھ دیا گیا جسے بعد میں پھر سے بدل کر ساہیوال کردیا گیا جو بالکل درست فیصلہ تھا جبکہ لائل پور کا نام تبدیل کرنا سراسر ناانصافی تھی کیونکہ منٹگمری کا منٹگمری سے کوئی تعلق نہ تھا جبکہ لائل پور تو آباد ہی سر جیمز لائل نے کیا تھا۔ ہمارے دوست نسیم خاص طور پر مانچسٹر سے آئے تو میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ خالص انگلش ناشتے اور اٹالین ٹائپ کھانے کھا کھا کر میری مت ماری گئی ہے۔ شام جہاں جیسے مرضی آپ کی لیکن ڈنر کے لئے کوئی خالص پاکستانی ڈھابہ بھی ہو تو چلے گا۔ نسیم بھائی کے کسی دوست کی پاکستانی ریستورانوں کی چین ہے۔ نسیم بھائی نے اسے مراکو کال کرکے کہا کہ اپنے سٹاف سے کہیں بہترین کھانے کا اہتمام کرے۔ نسیم کا گورا ڈرائیور پال بہت دلچسپ آدمی نکلا کہ وہ بھی پاکستانی کھانوں کا رسیا تھا۔ چار دن بعد دال ماش، سیخ کباب، مٹن کڑاھی اور اپنی دیسی روٹی دیکھ کر دل خوش ہوگیا حالانکہ میں خوش خوراکی کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا اور چند ہفتوں سے چپاتی چاول وغیرہ ویسے ہی چھوڑ رکھے تھے۔اگلی صبح غازی صلاح الدین کو امریکہ کے لئے رخصت کیا اور پھر اسی دن شام پانچ بجے کی فلائٹ سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.