Javed Iqbal

پی سی ایس ایشو تو مجھے یوں چمٹا جیسے یہ لوگ ڈی ایم جی کو چمٹے ہوئے ہیں۔ کچھ دوستوں کا مشورہ ہے کہ اس حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کر نا چاہئے تواگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو ست بسم اللہ کیونکہ میرے لئے دونوں فریق ایک جیسے کہ نہ میں پچھلے جنم میں پی سی ایس تھا نہ آئندہ جنم میں ایسا کوئی ارادہ ہے کہ ہم جیسے آوارہ گرد نہ اچھے باس ہوسکتے ہیں اور سبارڈی نیٹ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جیسے پی سی ایس والوں نے بریفنگ دی… کوئی اور دینا چاہے تو موسٹ ویلم… اس موضوع پر اختتامی بات یہ عرض کروں گا کہ بظاہر ڈی ایم جی والے ان پی سی ایس والوں کو پار نہیں اترنے دیں گے۔ ہماری عدالتیں تاریخ شکن اور تاریخ ساز فیصلے دے رہی ہیں سو انہیں انصاف کے لئے ایوان عدل کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے… اور اب اصل موضوع کی طرف۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ سپر پاور اور ”سپرپاوری“ نہ بھیک میں ملتی ہے نہ تحفے میں… اس کے لئے تسلسل کے ساتھ منظم طریقہ سے جان توڑ محنت کرنی پڑتی ہے اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ بھی کوئی نہیں۔ اس جدید دنیا، تہذیب اور تمدن کے معماروں کی فہرست بنائیں اور مختلف شعبوں کے حوالہ سے بنائیں جس میں ادب سے لے کر ماڈرن آرٹ تک، سائنس سے لے کر ٹیکنالوجی تک، سماجیات و بشریات سے لے کر فلسفہ تک اور سیاست سے لے کر حکومت تک سبھی اہم شعبے شامل ہوں تو آدمی یہ جان کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ بھاری اکثریت امریکنوں کی ہے یا ان کے کزن برطانویوں کی۔ عہد حاضر پر چند ایجادات نے حیرت انگیز اور دور رس نتائج مرتب کرکے اس کرہٴ ارض کا چہرہ ہی بدل ڈالا۔ ہوائی جہاز، موٹر کار، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، بجلی، ایٹمی توانائی، سب امریکنوں کے عظیم الشان اور لازوال کارنامے ہیں جن سے صبح شام استفادہ کرنے کے باوجود ان کی بھرپور داد نہ دینا بدترین قسم کی کم ظرفی ہی نہیں نادانی بھی ہوگی۔ امریکنوں کے بارے میں سو فیصد فیصلہ درست ہے کہ یہ تو سرے سے کوئی ”نیشن“ ہی نہیں بلکہ "A Nation of Nations"اور یوں بلاشبہ امریکہ اقوام عالم کا ایک ایسا نمائندہ ملک ہے جیسا ریکارڈڈ انسانی تاریخ میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مختلف مذہبوں اور ملکوں کا محیر العقول مجموعہ اور نمائندہ ہے، اقوام عالم کا گلدستہ! امریکہ کا اکلوتی سپرپاور بن جانا بھی کوئی حادثہ، معجزہ یا اتفاق نہیں ہے کیونکہ تاریخ کا رخ تھا ہی اس طرف کہ یہ دنیا ”ملٹی پولر“ سے ”بائی پولر“ ہونے والے مرحلہ سے گزر کر ”یونی پولر“ ہونے کی منزل تک پہنچ جائے۔ اپنے نوجوان قارئین کی سہولت کے لئے وضاحت کرتا چلوں کہ ”ملٹی پولر“ سے مراد اک ایسی دنیا ہے جس میں دو سے زیادہ یعنی تین، چار پانچ ”چودھری“ ہوں۔ بائی پولر سے مراد ہے وہ دنیا جس میں دو ”گلوبل چودھری“ ہوں جیسا کہ سوویت یونین بکھرنے سے پہلے تھا اور ”یونی پولر“ کا مطلب ہے اک ایسی دنیا جس میں صرف ایک ”چودھری“ ہو جیسے گاؤں کا مکھیا ایک ہوتا ہے، ٹیم کا کپتان ایک ہوتا ہے، فوج کا کمانڈر انچیف ایک ہوتا ہے، ملک سے گھر تک کا سربراہ ایک ہوتا ہے اور جیسے کائناتوں کا خالق و مالک ایک ہے اور یہی قدرت کا مقصد و منشا اور تاریخ کا فیصلہ ہے کہ ادھر دنیا سکڑ کر ”گلوبل ویلیج“ میں تبدیل ہو تو ساتھ ہی اس کی ”کپتانی“ اور ”لیڈری“ بھی کسی ایک مستحق ترین ملک کو سونپ دی جائے۔ امریکہ سپرپاور ہے تو اسی لئے کہ تاریخ انسانی کے اس مرحلہ پر ایسا ہونا سو فیصد ناگزیر تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکہ کی سپرپاوری اٹل اور ابدی ہے۔ امریکہ تب تک سپر پاور ہے جب تک وہ ”گلوبل لیڈر“ ہونے کے تمام تر تقاضے پورے کرکے اس کے طے شدہ معیاروں پر پورا اترتا رہے گا یعنی ایجاد، اختراع ، علم، سیاسی استحکام، معاشی طاقت، اخلاقیات، انصاف، احتساب، قیادتوں کا تیز ترتیب کے ساتھ بدلتے رہنا اور دیگر خصائص میں امریکہ جب تک سرفہرست ہے، دنیا کا سردار رہے گا خواہ کسی کو پسند آئے نہ آئے… میں نے کبھی امریکہ میں نہ کیڑے نکالے نہ برا بھلا کہا نہ بطور سپرپاور اس کی ”معزولی“ ، ”معطلی“ یا ”ریٹائرمنٹ“ کی بات کی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سپرپاورز اسی طرح ”ایکٹ“ اور ”بی ہیو“ کرتی ہیں اور ملکوں کے معاملات و سیاسیات کا اخلاقیات کے ساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بے ر حم اور سفاک سرجری کے سوا یہ کاروبار کچھ بھی نہیں ۔ ملک ملک ہوتے ہیں… ”ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ“ یا رومیو جولیٹ کا افیئر نہیں۔ ملک بلھے شاہ کا صوفیانہ کلام نہیں ”بیکٹ“ والی کہانی ہے… لیکن پہلی بار امریکن مجھے پٹڑی سے اترے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان سے امریکہ کا تازہ ترین مطالبہ انسانی تاریخ کا مضحکہ ترین مطالبہ اور اقوام عالم کی تاریخ کا اک ایسا لطیفہ ہے جس پر ہنسنے کے ساتھ ساتھ رونے کو بھی جی چاہتا ہے۔ امریکن قیادت کا یہ احمقانہ مطالبہ ملا حظہ فرمایئے کہ پاکستان ان کے خلاف عوامی جذبات پر قابو پانے کے لئے سخت اقدامات کرے… سمجھ نہیں آرہی کہ سپرپاور کے سر میں یہ بے سرا سا خیال آیا کس طرح؟ کیا سپر پاور اتنا بھی نہیں جانتی کہ ”زنا بالجبر“ تو ہوتا ہے لیکن ”محبت بالجبر“ اور ”عزت بالجبر“ ناممکن ہے کہ یہ تو ”دلاں دے سودے“ ہوتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے پا کستان کے لئے بہت کچھ کیا جس کی یہ ایک مثال ہی کافی ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب اندرا گاندھی نے باقی ماندہ پاکستان کو بھی روندنا چاہا تو اسے شٹ اپ کال دے کر روکا گیا، پچھلے ساٹھ سال کی مالی اور اسلحی امداد کا ٹوٹل بھی سر گھما دے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے متوسط طبقات کے بے شمار درجات میں سے لاکھوں خاندانوں کے بڑے حصے امریکہ میں آباد ہیں لیکن اس کے باوجود اگر امریکہ کے خلاف جذبات پر قابو پانے کی ضرورت کی نوبت آگئی ہے تو امریکن قیادت مطالبے کی بجائے منطق سے کام لے اور یہ جاننے کی سائنٹیفک کوشش کرے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اسباب کیا ہیں؟عوامل کیا ہیں؟ اگر امریکنوں کو اپنے ”امراض“ کی ہی خبر نہیں تو ”علاج“ بھی ناممکن سمجھو!

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.