Javed Iqbal

ق لیگ اور قوت کا توازن…چوراہا …حسن نثار

ایک زمانہ تھا جب مومن منصب کو مصیبت سمجھتا تھا، اقتدار کو سخت ترین امتحان کا درجہ حاصل تھا۔ پھر بتدریج یوں ہوا کہ اقتدار عیاشی، بدمعاشی اور کرپشن کا سمبل بن گیا۔ تیونس کے بھگوڑے حکمران سے لے کر مصر اور لیبیا تک کے حکمرانوں تک سب ایک جیسے ہیں۔ منوں نہیں انہوں نے ٹنوں کے حساب سے سونا جمع کر رکھا ہے۔ اپنے اپنے ملکوں اور ہم وطنوں کے یہ بدترین دشمن عبرت کی ان گنت کہانیوں کے باوجود باؤلے جانوروں کا سا رویہ رکھتے ہیں۔ جیسے انہیں یقین ہو کہ فرشتہٴ اجل کو بھی کچھ دے دلا کر واپس بھیج دینگے ۔ نہ انہیں شاہ ایران کے دھکے یاد ہیں نہ عیدی امین کی غریب الوطنی۔ ا قتدار کا یہی اندھا پن پاکستانی حکمران طبقات کا بھی طرہ امتیاز ہے کہ اپنا ملک لوٹ لوٹ کر بیرون ملک بینک بھرتے اور جائیدادیں بنائے جاتے ہیں حالانکہ اصل جائیداد تو وہی ہوتی ہے جس کے بارے میں آخری مغل نے کہا تھا کہ …”دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں“۔
خدا جانے مسلمانوں کی نفسیات میں یہ نقب کس نے لگائی اور کب لگائی کہ انہیں اقتدار ہضم نہیں ہوتا… انہیں اقتدار کا اپھارہ ہو جاتا ہے۔ جتنا اقتدار اتنا ہی ” بے اختیار کرپٹ“ اور اتنا ہی بڑا فرعون۔ انتہا یہ کہ ”صاحب“ کا چپراسی بھی چمڑے کے سکے چلانے سے باز نہیں ا ٓتا اور پٹواری جیسا معمولی بستہ بردار بھی عام آدمی کے لئے ”عالم پناہ“ سے کم نٓہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں پورا اقتدار بندر کے ہاتھ میں استرے سے بھی ز یادہ خطرناک ہے۔ اسی لئے یہاں کسی کو ایک حد سے زیادہ اقتدار ملنا عوام کے لئے پیغام مرگ ہے۔ ذرا یہ خبر ملاحظہ فرمایئے تاکہ بات سمجھنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
”گلبرگ میں سول سروسز اکیڈیمی میں زیر تربیت چار افسر اور ان کا ڈرائیور شراب کے نشے میں دھت پکڑے گئے۔ مجاہد سکواڈ کے اہلکاروں کے روکنے پر ان سے توتکار اور ہاتھا پائی ہوگئی۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے حوالات میں بند کر دیا۔ اکیڈیمی میں زیر تربیت افسران کو روکتے ہی انہوں نے مجاہد سکواڈ کے اہلکاروں کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ پولیس والوں نے گالیاں دینے سے منع کیا تو انہوں نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ وہ سول سروسز اکیڈیمی میں زیر تربیت افسران ہیں اور انہیں سبق سکھا دینگے۔ مجاہد سکواڈ نے صورتحال کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے رات 3بجے اپنے ایس پی سے رابطہ کیا۔ ایس پی مجاہد نے مذکورہ افراد سے فون پر بات کی تو انہوں نے ایس پی کے ساتھ بھی بیہودہ انداز میں گفتگو کی اور دھمکی دی کہ انہیں جانے دیا جائے ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ ایس پی نے دھمکیاں سننے کے بعد اپنے جوانوں سے کہا کہ وہ انہیں لے کر تھانہ گلبرگ آجائیں جہاں پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کی گاڑی سے ایک بوتل شراب برآمد کرتے ہوئے انہیں حوالات میں بند کردیا“۔
اس بظاہر معمولی سی خبر کو تیسری آنکھ سے پڑھیں تو اپنا سب سے بڑا المیہ بالکل سامنے اور برہنہ دکھائی دے گا۔ شراب کی ایسی تیسی اور اس کے نشے کی دم میں نمدا کہ سول سروسز اکیڈیمی میں ”زیر تربیت“ یہ افسران شراب نہیں اس اقتدار کے نشے میں دھت تھے جو تربیت کی تکمیل پر انہیں ملے گا یعنی ان سکھوں جیسی کیفیت جنہیں بھنگڑے ڈالتے اور بڑھکیں مارتے دیکھ کر کسی نے پوچھا … ”کیوں سردار و! کچھ زیادہ پی لی ہے؟“ تو سرداروں نے بیک زبان جواب دیا ”نہیں… ابھی تو لڑکا لینے گیا ہے“۔ اگر ”زیر تربیت“ افسران کے تکبر، رعونت اور فرعونیت کا یہ حال ہے تو آپ تصور کریں کہ اگر اس ملک میں کسی کو وا ضح برتری، بھاری مینڈیٹ اور کلین سوئپ ٹائپ کوئی شے مل جائے تو یہ ”عوامی فرعون“ اور ”انتخابی نمرود“ کیسی تباہی نہ مچائیں گے؟
ابھی تو یہ سانجھے کی حکومتیں ہیں، کولیشن گورنمنٹس ہیں جنہیں ہر وقت اپنے سروائیول کی ہی پڑی رہتی ہے… خدانخواستہ خدا نخواستہ میرے منہ میں خاک اگر کسی کو Absolut Powerالمعروف بھاری مینڈیٹ وغیرہ مل جائے تو پھر یہ عوام کے لئے کتنا بڑا عذاب ثابت ہوں گے۔ ایک وقت تھا جب میں نے ق لیگ کے چند بھگوڑوں کو یہی منطق دی تھی کہ خود پر ظلم نہ کرو اور ق لیگ کو پنجاب میں ایم کیو ایم سے ملتا جلتا سیاسی سٹیٹس حاصل کرنے دو تاکہ کسی کی سیاسی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے اور سب نسبتاً اپنے اپنے کینڈے اور ا وقات میں رہیں کہ طاقت اور اقتدار کے حوالہ سے ہمارے ہاضمے بہت کمزور ہیں۔ ق لیگ اگر حکومت کا حصہ بنتی ہے تو یہ بہت نیک شگون ہوگا کیونکہ طاقت میں توازن کے لئے تیسری قوت بہت ضروری ہے۔ پھر بھی اگر کوئی کسر رہ گئی تو مجھے امید ہے کہ عمران خان اسے ٹھوک بجا کر پورا کر دے گا اور ہم اس صورتحال سے بچ جائیں گے کہ
”گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“
یہاں جسے بھی بھرپور اقتدار ملا وہ شیشے کے برتنوں میں وحشی بیلیا بھینسے والا کام کرے گا۔ میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ اگر سندھ میں ایم کیو ایم نہ ہوتی اور پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے مقتدر ہوتی تو کیا ہوتا؟ صرف پیپلز پارٹی ہی کیا سب کا یہی حال اور رویہ ہے سو دعا کرو اور دوا بھی کہ کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے پائے کہ یہاں تو چپراسیوں اور پٹواریوں سے لے کر سول سروسز اکیڈیمی کے ”زیر تربیت“ افسران ہی مان نہیں… کسی ایک سیاسی خاندان کو پورا اقتدار مل گیا تو پھر اس پاکستان کا اللہ ہی نگہبان ہو تو ہو جو پہلے ہی لرزاں و ترساں ہے۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.