Javed Iqbal

آج کے کالم کا آغاز اپنی ایک غلطی کے اعتراف سے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے لندن میں آوارگی کے حوالہ سے فیلڈ مارشل منٹگمری کے مجسمہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک شہر منٹگمری کو اس انگریز جرنیل کے کھاتے میں ڈال دیا جس نے شہرئہ آفاق جرمن جرنیل رومیل کو شکست دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ حال ساہیوال اور ماضی کے منٹگمری کا نام پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر (1865) سر رابرٹ منٹگمری کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا فیلڈ مارشل منٹگمری سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اپنے قابل احترام قارئین اشفاق احمد وڑائچ (فیصل آباد) اور چوہدری عبدالقیوم (ساہیوال) کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان حضرات نے تصحیح فرمائی۔ درستگی بہت پہلے ہو جاتی لیکن اتفاق سے دونوں خطوط ہی کچھ دیر سے مجھ تک پہنچے۔
ملکی حالات شہریوں کی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اس خط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جسے تیسری آنکھ سے پڑھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
”محترم حسن نثار!
اسلام علیکم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آج پہلی بار کسی صحافی کو خط لکھ رہا ہوں۔ آپ سے خصوصی نسبت اس لئے بھی ہے کہ آپ بھی میرے شہر فیصل آباد کے ہیں۔ کچھ حالات اور گردش دوراں مجھے اسلام آباد لے آئے مگر دل ابھی تک وہیں ہے۔ والدین فوت ہو چکے۔ بھائی بہن کوئی نہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں کام کرتی ہوں۔ آج آپ کو ایک بات بتا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں۔ 26 اپریل 2011ء کو میں نے خواب میں قائداعظم اور علامہ اقبال کو بے حد پریشانی کی حالت میں دیکھا۔ میری عمر اس وقت اکتالیس سال ہے۔ فجر کی نماز کے وقت میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے پہلی بار ان ہستیوں کو خواب میں دیکھا اور وہ بھی اتنی پریشانی کے عالم میں کہ بیان سے باہر ہے۔
حسن صاحب! اپنے ایمان سے اور اپنے رب کو حاضر و ناظر جان کر بتایئے کہ آج پاکستان جس عذاب میں مبتلا اور آفتوں میں گھرا ہوا ہے … اس خواب کا کیا مطلب ہے اور میرا خواب غلط تو نہیں؟ اسی بات پر یہ خط ختم کرتی ہوں کہ اللہ پاک اس ملک کو اور اس ملک میں رہنے والوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور رحم فرمائے۔
(شہلا صابر۔ اسلام آباد“
قارئین!
ان دو خطوں کے بعد دو خبریں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع زمز فلڈ کی ایک امریکن ایئر پورٹ پر بھرپور تلاشی لی گئی اور اس کار خیر کے دوران جناب رمز فلڈ مسلسل مسکراتے رہے۔ ایک ہمارا یہ اسلامی جمہوریہ ہے جہاں ٹکے ٹکے کے اٹھائی گیروں، ٹھگوں اور جیب کتروں بندہ پوچھے اور بے حیا! تو درخت پر اگا تھا، چاند سے ٹپکا تھا یا سیپی سے برآمد ہوا تھا اور کیا مرنے کے بعد تیری قبر خلاء میں بنتی ہے؟ کیسا بد شکل بدببودار ماحول ہے جس میں ”بندہ کبندہ“ جیسی غلیظ اصطلاحیں عام استعمال ہوتی ہیں اور بات بات پر عوام کے لئے ”آبدیدہ“ ہو جانے والے اداکار رستے روک روک کر عوام کی زندگیاں اجیرن کئے دیتے ہیں اور لوگ پھر بھی یہ پوچھنے سے باز نہیں آتے کہ امریکن ”ان داتا“ کیوں ہیں اور ہم بھکاری کیسے بنے؟ جس دن یہاں کے رمز فلڈ بھی خود کو ”عوام“ سمجھنے لگے یہ ملک بھی خاص ہو جائے گا۔
دوسری خبر تو بہت ہی دلچسپ ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ جلد از جلد اس طرح کا ”وائرس“ چین سے پاکستان بھی پہنچ جائے اور یہاں بھی شہر شہر ”گلو ٹین“ نصب ہو جو تین تین شفٹوں میں کام کرے۔ آج مورخہ 20 جولائی یہ کالم شروع کرنے سے پہلے ”جیو“ پر یہ خبر سنی کہ چین میں دو سابق میئرز کو کرپشن کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔ واقعی جنہوں نے اپنے ملکوں کو سزائے موت سے بچانا ہو وہ اسے لوٹنے والوں کو سزائے موت سنانے سے گریز نہیں کرتے۔ پاکستان میں تو اس حوالہ سے بے حسی اس سطح تک آ پہنچی ہے کہ منے پرمنے ڈکیت بھی ”کرپشن کرپشن“ کے نعرے لگاتے ہیں جیسے کوئی طوائف کسی گھریلو خاتون کو طعنہ دے کہ تمہارا دوپٹہ سر سے ڈھلکا جا رہا ہے۔ کمال ہے کہ کرپشن کے منبے اور موجد بھی کرپشن کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس عذات زدہ زمین پر حساب کتاب کی نوبت آ ہی نہیں سکتی کیونکہ جواہرات جڑے سونے کے اس حمام میں سب نے ایک جیسا لباس پہن رکھا ہے… کوئی ننگا نہیں کیونکہ ہر چور بلٹ پروف جیکٹ پہن کر بلٹ پروف گاڑی میں حمام کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
آخر پر پھر وہی عرض … وہی اپیل… وہی آرزو کہ … جنہوں نے اپنے ملکوں کو چنییوں کی طرح سزائے موت سے بچانا ہو، وہ اسے لوٹنے والوں کو سزائے موت سنانے سے گریز نہیں کرتے تو یہاں ان کی باری کب آئے گی؟ یہ باب کب کھلے گا؟ یوم حساب کب اترے گا؟

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.