Javed Iqbal
گزشتہ چند رو ز سے گم سم، چپ چاپ خود کو ایک کمرے اور بیلکنی تک محدود کئے ہوئے میں صرف ایک ہی بات پر غور کر رہا ہوں کہ …”کیا لکھوں؟“ گھسے پٹے ،چغلے چغلائے، روٹین کے موضوعات پر بہت سے ”مفکر“ مصروف قلم ہیں اور اپنا یہ عالم کہ جو لکھنا چاہتا ہوں، وہ لکھ نہیں سکتا اور جو لکھ سکتا ہوں وہ لکھنا نہیں چاہتا کہ اک ہجوم یہ کارخیر سرانجام دے رہا ہے اور میر ا مسئلہ اپنی جگہ کہ… کیا لکھوں؟
صدیوں بلکہ گزشتہ ہزاروں سال میں کیا کیا کچھ نہیں لکھا گیا؟ انسان کے اندر چھپے ہوئے حیوان بلکہ شیطان کو سنوارنے سدھارنے کے لئے کس کس نے کیا کیا کچھ نہیں لکھا؟… اس کی چند جھلکیں اس ”فٹ نوٹ“ کے ساتھ پیش کر رہا ہوں کہ یہ سب مل جل کر بھی اگر اس انسان کے اندر چھپے حیوان اور شیطان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے تومیں کس کھاتے میں ہوں اور یہ ”دیہہ جماتاں پاس دانشور“ یا ”ایف اے اردو“ ٹائپ گھامڑ کس شمار قطار میں جو ”ناجائز تجاوزات“ جیسی احمقانہ اصطلاحیں استعمال کرتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ”ناجائز تجاوزات“ ہوتی ہیں توصاحب! ”جائز تجاوزات“ کس چڑیا کا نام ہے؟ ”ناجائز تجاوزات“ جیسی ”اصطلاح“ کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ”ماہ ِ رمضان کے مہینے میں“ … یا… ”برلب سڑک کے کنارے“ لیکن اس وقت جعلی اردو دانی کی کمانی کسنا میرا موضوع نہیں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر چھپے حیوان کو لگام دینے کے لئے ہزاروں سال سے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ اس عظیم الشان ناکام انسانی جدوجہد کی طرف یہ چند اشارے ہی کافی ہوں گے۔
انسان کے انسان ہونے کا امکان ہوتا تو الہامی کتابوں کے بعد بھلا کس تحریر کی ضرورت تھی؟ لیکن یہاں تو حال یہ کہ اقبال تک کو اعتراف کرنا پڑا کہ:
”خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں“
ایسے میں انسانی تحریریں اس کی جبلت اور علت سے کہاں تک برسرپیکار رہ سکتی ہیں۔ کراچی تو کراچی ہے
یہاں تو نیویارک میں بجلی چلی جائے یا لندن میں انسانی فیوز اڑ جائے تو اچھے بھلے انسانوں کے اندر سے حیوانوں کے غول در غول برآمد ہوتے ہیں۔ ہزاروں سال کی مسلسل مشقت کے بعد بھی انسان پر انسان کا صرف ”میک اپ“ ہی کیا جاسکتا ہے۔ غیظ و غضب یا خودغرضی کی ایک بارش یہ ”میک اپ“اتار دیتی ہے تو انسانی چہروں کے اندر سے بھیڑیئے نکلتے ہیں اور بوری بند لاشوں کے بازار سج جاتے ہیں۔
اگر جبلت اور خصلت ہی یہ ہے تو یہاں کنفیوشس کے قول اور کالی داس کی شکنتلا کیا کرے گی؟ فردوسی کے ”شاہنامہ“ سے کوئی کیا سیکھے گا؟ مثنوی مولانا روم کہاں بیٹھ کر روئے گی اور سعدی کی گلستان بوستان ٹارگٹ کلرز کو کتنی سمجھ آئیں گی؟ کلیلہ و منہ ہو یا الف لیلیٰ ولیلیٰ، دانتے کی ”ڈیوائن کامیڈی“ ہو یا بلھے شاہ کا کلام، حافظ وعمرخیام کے دیوان اور رباعیات ہوں یا ڈیکارت کی ”میڈی ٹیشنز“ … میکسم گور کی کی ”ماں“ ہو یاروسو کا ”معاہدہ ٴ عمرانی“… مور کی ”یوٹوپیا“ ہو یا ٹالسٹائی کا ”وار اینڈ پیس“ چیخوف ، موپساں یا منٹو کی کہانیاں ہوں یا میاں محمد کی شاعری، بھگوت گیتا یا ”مونٹین کے مضامین“ جان ملٹن کی Paradise Lost ہو یا استاد آدم سمتھ کی ”دی ویلتھ آف نیشنز“ یاگوگول کی ”مردہ روحیں“ … مالتھس کا ”نظریہ ٴ آبادی“ ہو تھامس کارلائل ہمنگوے کی ”فیئر ویل ٹو آرمز“ اک خاتون خانہ کی ”انکل ٹامز کیبن“ ہو یا کوئی اور… کوئی اور… کوئی اور… کوئی لوئی پاسچر ہو یا ایڈی سن اور فورڈ، ولبرراٹ ہو یا جیک کلبی، فرانسس کرک ہو یا رابرٹ گیلو، کوئی برنرزلی ہو یا ٹیورنگ جو انسان کو ٹیکنالوجی کے آسمان تک پہنچا دیتے ہیں لیکن نتیجہ کیا؟ آرٹ میں پکاسو، میوزک میں مائیکل جیکسن جیسا جینئن، سائنس و فزکس میں نیوٹن، فاراڈے، ردرفورڈ یا سٹیفن لی کنگ جیسی جدید بلائیں یا جان ڈالٹن اور کارل پالنگ جیسے کیمیاگر… انسان کو غصہ، خودغرض، ہوس، لالچ، انتقام، غلبہ سے نجات نہیں دلا سکے تو یہ چنداخباری کالم… کیا پدی کیا پدی کا شوربہ لیکن شاید یہ ماتم بھی ضروری ہے کہ اس سے کراچی کے قاتلوں میں انسانیت جاگے نہ جاگے… اپنا اور قاری کا تو کچھ نہ کچھ کتھارسس ہو جاتا ہوگا۔
Let's Study Urdu: An Introductory Course (Yale Language Series) (v. 1) EuroTalk Interactive - Talk Now! Learn Urdu Ghalib, The Indian beloved, Urdu Odes
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.