Javed Iqbal
 
ظاہر ہے مجھے بھی لوڈشیڈنگ سے اتنی ہی چڑ بلکہ نفرت ہے جتنی کسی اور پاکستانی کو ہوگی لیکن یہ کیا طریقہ ہے ؟ پنجاب یونیورسٹی کے طلباء مستقبل کے معمار بھی ہیں اور”کریم “ بھی لیکن بدنصیبی کی انتہا کہ انہیں بھی احتجاج کا سلیقہ نہیں ۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران طلباء نے نیو کیمپس میں نہر کے دائیں بائیں رستے روک دیئے جس کے نتیجہ میں گارڈن ٹاؤن، مسلم ٹاؤن، سہر وردی روڈ، کلمہ چوک اور فیروز پور روڈ وغیرہ پر شہر کے بدترین ٹریفک جیم نے پورا علاقہ جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔ اقبال کے ان شاہینوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مریضوں کا کیا بنے گا کہ اسی علاقہ میں چند اہم ہسپتال بھی ہیں انہیں اس بات کا خیال بھی نہیں آیا کہ جن عوام کو یہ اس عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں وہ بھی لوڈشیڈنگ کا اسی طرح شکار ہیں جیسے یہ خود یا دوسرے پاکستانی …کیا ان نوجوانوں کو اتنا شعور بھی نہیں کہ پاکستان پر لوڈشیڈنگ کا یہ قہر مسلط کرنے والے تو لوڈشیڈنگ سے ماورا اپنے محلات میں سکون سے بیٹھے ہیں اور یہ عوام سے انتقام لیکر کون سی توپ چلا رہے ہیں اور ان کی اس حرکت سے اصل ذمہ داران بلکہ مجرمان کا کیا بگڑے گا؟
میں نے چند روز پہلے بھی اس بات کا رونا رویا تھا کہ جہالت تو جہالت … اس ملک کی اشرافیہ نے تو تعلیم کے نام پر بھی جہالت ہی پھیلائی ہے ۔ تعلیم ردی کا ایک ٹکڑا پکڑ کر اس کے بل بوتے پر نوکری حاصل کرکے حرام حلال کھانے کا نام نہیں … تعلیم تو دراصل ترتیب ، توازن، تہذیب، تمیز،متحمل ، تحمل، تدبر، تفکر اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلق خاطر کے رشتے میں مل جل کر خوبصورتی کے ساتھ زندہ رہنا سکھاتی ہے لیکن…افسوس صد افسوس پاکستان کی قدیم اور نامور ترین یونیورسٹی کے طلباء کا یہ رویہ ؟؟؟ درد ناک بھی اور شرمناک بھی ہے۔
کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کل اس ملک کے گھمبیر ترین معاملات سنبھالنے ہیں ؟ کیا یہی وہ سوچ ہے جس نے اس سلگتے ہوئے ملک کے زخموں پر دست مسیحائی رکھنا ہے ؟ کیا یہی وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ٹریفک کے بعد ستاروں پر کمندیں ڈالنی ہیں ؟ کوئی مجھے مایوسی کا مون سون کہے تو سر آنکھوں پر لیکن میں منافق نہیں اور انتہائی دکھ کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ مجھے اگلی نسل میں بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی ۔ جو بویا وہی کاٹنا ہو گا۔
کیا ہمارے یہ بچے اتنی معمولی سی بات سمجھنے کے قابل بھی نہیں تھے کہ شہر پہلے ہی پٹرول کے قحط میں مبتلا ہے اور یہ ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کی بجائے اسے منجمد کرکے بے قصور، بے گناہ عوام کی زندگیاں مزید اجیرن کر رہے ہیں۔ حیرت ہے اس ”یوتھ “ پر جو ذمہ داروں کا تو کچھ اکھاڑ بگاڑ نہیں سکتے …ان عوام کو یرغمال بنا رہے ہیں جو ان طلباء سے بھی کہیں بڑھ کر اس لعنتیہ لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں۔رستے روکنے ، ٹانگ رکھ کر بیٹھے بے غیرتوں کو روکو … عوام تو خود اس کا ٹارگٹ ہیں، انہیں ٹارچر کس بات پر ؟یہ سوچنا پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کا کام ہے میری ذاتی ذہنی کیفیت تو یہ ہے کہ میں اس یونیورسٹی کا سابق طالب علم اور ہاسٹل نمبر 1کا سابق رہائشی ہونے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا ممبر ہونے کے باوجود اس ادارہ کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رکھنا چاہتا۔ میں نے اپنے پیارے اور محترم دوست وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی اجازت سے بطور ممبر سنڈیکیٹ مستعفی ہونا چاہوں گا کہ مجھے پہلے بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار برادر طارق مجید قریشی مصر نہ ہوتے تو میں معذرت کر چکا تھا ۔اب اگلا ماتم … گلے سڑے غیرت بریگیڈ کی غیرت نہیں بے غیرتی پر غصہ چڑھتا اور خون کھولتا ہے یہ سطحی اور سستے جذبات کے سفلے سوداگر وہ سودا بیچتے ہیں جو جہل کی منڈی میں آسانی سے بک جاتا ہے لیکن یہ غیرت مند کبھی اس حقیقت پر غیرت نہیں کھاتے کہ اس ملک میں 57فیصد شہریوں کو بھوک مٹانے کیلئے مناسب خوراک میسر نہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے 42فیصد پاکستانیوں کی خوراک کم ہو چکی ہے ۔ ان جھوٹے غیرت مندوں کی غیرت امریکہ کے ارد گرد ہی کیوں مجرا کرتی ہے ؟ ان کی کھاتی پیتی خوشحال اور آسودہ غیرت کو اس وقت غوطے کیوں نہیں آتے جب انہیں اپنے ہم وطنوں کی بھوک کا پتہ چلتا ہے ؟ایک دوسرے کو لوٹنا، ایک دوسرے کو مارنا، ایک دوسرے کو ایکسپلائٹ کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ بولنا، دو نمبر کھانے پینے کا سامان بیچنا،گھوسٹ سکول اورٹیچر رکھنا… کیا یہ سب ”بدترین بے غیرتیاں “ نہیں ہیں تو ان اصل موضوعات کی طرف کیوں نہیں آتے ؟ جو آپس میں غیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے انہیں باہر سے بھی غیرت مندی کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ ایسی ہر امید خود بے غیرتی ہے ۔ 57فیصد کو مناسب خوراک میسر نہیں اور غیرت مند سپر پاور سے ٹکرانے چلے ہیں تو پھر اللہ ای حافظ کہ منافقت ، جہالت اور جھوٹ کیلئے بھی کچھ زیادہ ٹائم باقی نہیں ہے ۔آخر پر اک آخری تھپڑ لیکن…ہم اتنے بے حس اور ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ ہم پر اس خبر کا بھی کوئی مثبت اثر نہیں ہوگا۔ واہ صدقے جاواں کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اک ہسپتال کے دورے پر گئے جس کے دوران ہسپتال کے سینئر سرجن نے انہیں بہت بری طرح ڈانٹ دیا۔ معاملہ ڈانٹ پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ سینئر سرجن نے وزیر اعظم کو وارڈ سے نکل جانے کا حکم بھی دیا جس کی تعمیل کی گئی ۔یہ ہیں مہذب قومیں، مہذب لوگ اور روتے ہوئے عرض کروں تو یہ ہی ہمارے ہیں خلفائے راشدین کے بامعنی وارث … مسلمانوں کی لیگسی کے سانبھو اور تھامو جبکہ پورے عالم اسلام میں تو قذافیوں، زرداریوں، حسنی مبارکوں وغیرہ کے علاوہ اور ہے ہی کچھ نہیں
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.