Javed Iqbal
 
13/ مئی کی ظالم دوپہر اس نہر والی بستی کے بام و در بھی جیسے سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ پیڑ، پودے، بیلیں اور جھاڑیاں بھی محو کلام تھیں۔ واقعی مکانوں کی عمریں مکینوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ رستے وہی تھے، دیواریں، چھتیں اور ستون بھی وہی تھے لیکن نہ میں وہ تھا نہ ڈاکٹر مجاہد کامران نہ طارق مجید قریشی اور نہ وہ من موہنے چہرے کہیں دکھائی دے رہے تھے جو اسی نیو کیمپس کے اسی مین کوریڈور کے چاند، سورج اور ستارے ہوا کرتے تھے۔ تین ادھیڑ عمر عمر رفتہ کی نشانیوں میں سے گزرتے ہوئے وہ کہانیاں کہہ رہے تھے جو کبھی حقیقتیں تھیں۔
پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں بھرپور کتاب میلہ اپنے عروج پر تھا۔ کتابی چہرے کتابوں کے سٹالز پر یوں منڈلا رہے تھے جیسے پھولوں کے گرد تتلیاں ، شمع کے گرد پروانے کہ میں نے اچانک ڈاکٹر مجاہد کامران سے کہا :
”وی سی صاحب! یہ طلبا اور طالبات ہمارے بارے میں سوچتے ہوں گے کہ ہم شروع سے ہی ایسے ہوں گے۔ لڑکپن اور جوانی کبھی ہمارے قریب سے بھی نہ گزری ہو گی … انہیں کوئی بتائے کہ نیرہ نور کی سنو جو سچ کہتی ہے
”کبھی ہم خوبصورت تھے“
انہی رستوں پر ہنستے کھیلتے بے فکرے کھلنڈرے لڑکے … ایک آج اسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہے، دوسرا اسی یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا ممبر، تیسرا ڈائریکٹر لیکن مقبول ملک کہاں چلا گیا؟ آؤ اسے ڈھونڈیں کہ یہیں کہیں کسی بینچ پر بیٹھا آنکھیں بند کئے گا رہا ہو گا۔
”چلو سجنی جہاں تک ہوا چلے، لگا کر مجھے گلے … چلو سجنی جہاں تک ہوا چلے اور پھر چند برس پہلے سجنی ایک موذی مرض کا روپ دھارے آئی اور ہمارے مقبول کو گلے لگا کر جانے کہاں لے گئی۔
اتنے پُرشور ہجوم میں اچانک مجھے موٹربائیک کی آواز سنائی دی ۔ یقینا تاجی ہو گا جو برآمدے میں موٹر بائیک پارک کر کے اپنے مخصوص انداز میں گنگناتا ہوا آئے گا۔
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو امتیاز یاد آئے گا
امتیاز کو سب پیار سے تاجی کہتے تھے اور کسی ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا اس نے سیکھا ہی نہ تھا لیکن اب دیکھو کتنے برس بیت گئے مٹی سے بھری ایک مختصر سی جگہ پر ایسے لیٹا ہے کہ اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔
کیمپس کی جو نہر ہے ناں یہ یونیورسٹی کے درمیان میں سے نہیں میرے سینے پر میری پسلیوں کے درمیان سے گزرتی ہے اور میں اس کے پانی میں ہر گمشدہ منظر ڈھونڈ لیتا ہوں … وہ دیکھو خواجہ سلیم، اعجاز بائی گاڈ، رجب علی پتافی، شیر قادر وغیرہ نہر میں نہا رہے ہیں اور ہر آتے جاتے کو بھی ڈنڈا ڈولی کر کے نہر کی گود میں اچھال دیتے ہیں۔ میں نے نئے جوتے پہنے ہوئے ہیں، پرانے جوتے بھی ڈبے میں ڈال کر سنبھالے ہوئے ہیں اور ان سب سے آنکھ بچا کر نکل جانے کے چکر میں ہوں کہ اچانک اعجاز کی نظر پڑ جاتی ہے۔ چھاپہ ماروں کا جتھہ مجھے دبوچ کر نئے جوتوں سمیت نہر میں پھینک دیتا ہے۔ سوئیڈ کے نئے جوتے تباہ ہونے کا ملال چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے اور میں بھی حال مست ہو کر کسی نئے شکار کا انتظار کرنے لگتا
ہوں … اب کتنے سال کتنی صدیاں بیت گئیں میں ارمانی کے کپڑے اور بالی کے جوتے پہن کر یہاں کھڑا ہوں کہ یہ پھر سے آئیں اور مجھے اٹھا کر پھر سے اس نہر میں پھینک دیں۔
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
میں نے کتاب میلہ سے بچوں کے لئے بہت سی اور اپنے لئے صرف منیر نیازی کی کلیات خریدی۔ منیر صاحب کی کتابیں ان کے دستخطوں سمیت میرے پاس ہیں لیکن عجب اتفاق کلیات نہیں تھی۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کتاب میلہ ”رہا“ کرا لیا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ چند لوگوں کے چنگل سے چھڑا لیا ہے اور اس بار مجھے طلبہ میں ڈسپلن بھی کچھ زیادہ دکھائی دیا۔ آج کے یہ بچے بالے بھی کل وہاں ہوں گے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ یہ بھی یہاں آ کر اسی طرح یادوں کی یلغار کے سامنے ہتھیار پھینک کر پتھرا جایا کریں گے کہ یہی زندگی ہے۔ پچھلے دنوں رجب پتافی آیا ہوا تھا ہم دونوں دیر تک ان کو یاد کرتے رہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑ چکے۔ میں نے رجب سے کہا ”یار! کبھی سوچا بھی تھا کہ یہ ہم میں نہ رہیں گے اور ہم آپس میں بیٹھ کر گھنٹوں انہیں یاد کریں گے“ ۔ رجب نے عجب سے انداز میں مجھے دیکھا اور پھر زیر لب بڑبڑایا
”او ظالما! میں نے تو کبھی یہ بھی نہ سوچا تھا کہ کبھی کیمپس بھی چھوڑنا پڑے گا… آؤ اب خواجہ سلیم کی باتیں کرتے ہیں“۔
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.