Javed Iqbal
 عدلیہ کا تحفہ...چوراہا …حسن نثار
مجھے درختوں سے محبت نہیں عشق ہے۔ گزشتہ بارہ تیرہ برس میں میں نے ہزار وں درخت، پودے لگوائے اور لگائے ہی نہیں انتہائی توجہ، محنت اور محبت کے ساتھ بچوں کی طرح ان کی پرورش بھی کی۔ پورا ”بیلی پور“ تو چھوڑیں خو د ہمارے گھرکے اندر سینکڑوں کی تعداد میں درخت، پودے، بیلیں موجود ہیں اور تو اور گھر کے اندر وہ روایتی درخت بھی لگوائے جنہیں لوگ تقریباً بھول چکے ہیں۔ مثلاً پیپل، کیکر، شرییہ، لسوڑھی، بیری، نیم، دھریک، شیشم اور املی وغیرہ جو اب گھروں میں کوئی نہیں لگاتا، ماشا اللہ سب جوان ہیں اور ان کے علاوہ ایلسٹونیا، فائیکس، شہتوت، آم، جامن، املتاس، کجھور، کچنار اور یگر پھلدار پودوں میں کجھور، چیکو، فالسہ، مالٹا، سنگترہ، کینو، چکوترا، آلوچہ، پھول والے پودوں مثلاً گلاب، لبنانی موتیا، رات کی رانیاں، مختلف قسم کی بوگنیں اور دوسرے بے شمار پودے، بیلیں، جھاڑیاں سب میری کمزوریاں ہیں ۔
اس تمہید کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں پلانٹ لور (Plant Lover)آدمی ہوں اور موسموں سے بے نیاز ہو کراپنے ہاتھوں سے کام کرتا ہوں۔ پودے، پرندے اور پانی میری تین ایسی کمزوریاں ہیں جن میں پودے سرفہرست ہیں کیونکہ شجرکاری کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔ حد یہ کہ بیلی پور والی سڑک کے کنارے برساتی نالے کے ساتھ لگے کیکر بھی اس گنہگار کا ہی کام ہے لیکن… کچھ عرصہ پہلے لاہور کی خوبصورت ترین کینال روڈ کے توسیعی منصوبے کے خلاف نام نہاد سول سوسائٹی عدالت سے ”سٹے“ ٹائپ کوئی شے لے آئی تو مجھے اس حرکت پر خاصی کوفت ہوئی۔ بعض اوقات یہ ممی ڈیڈی معطر قسم کے ”صاحب،بی بی اور غلام “ٹائپ لوگ ایسی عجیب و غریب اور سطحی حرکتیں کرتے ہیں کہ حیرت بھی ہوتی ہے اور غصہ بھی چڑھتا ہے۔ یہ نام نہاد ”سول سوسائٹی“ نہر کنارے لگے درختوں کی رشتہ دار اور ٹھیکے دار بن رہی ہے حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ان فیشنی شجریاروں میں سے کسی نے زندگی میں دس بیس درخت بھی نہیں لگائے ہوں گے اور پھر یوں بھی وہ زمانے لد گئے جب درخت لگانے اور ان کے جوان ہونے کے لئے زمانوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور یہ محاورہ زبان زد عام تھا کہ… ”دادا لگائے پوتا کھائے“ اب تو ایسی ایسی ورائٹی ہے کہ پودا پلک جھپکتے پھل دینے لگتا ہے اور ایسا ایسا تیزی سے بڑھنے والا (Fast Growing)درخت موجود ہے کہ آدمی عش عش کر اٹھے اور سب سے بڑھ کر یہ ”ٹیکنالوجی“ کہ چاہیں تو پلے پلائے جوان درخت لفٹ کرکے جہاں چاہیں فٹ کر دیں لیکن برا ہو ان کا جو قرینے، سلیقے اور ڈھنگ سے سوچنے کا ہنر ہی نہیں رکھتے۔
سڑکیں شہر کی شریانیں ہوتی ہیں وقت اور آبادی میں اضافہ کے دباؤ کے بعد ان میں توسیع ناگزیر ہوجاتی ہے اور انسانوں کو ٹریفک جیم اور فیول کے زیاں جیسے عذابوں سے بچانے کے لئے درختوں کی کٹائی کا زہر پینا ہی پڑتا ہے یوں بھی اک بہت ہی خوبصورت مصرعہ ہے:
”شہروں کا ہر شجر ہی کٹائی کیلئے تھا“
خاص طور پر فیروزپور روڈ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھ چکا ہے سو کینال روڈ کی توسیع بہت ضروری ہوچکی تھی لیکن کچھ لوگ اڑچن پیدا کر رہے تھے جسے سپریم کورٹ نے دور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عدلیہ! شکریہ پیشگی شکریہ
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے لاہور کینال روڈ کی توسیع میں درختوں کی کٹائی کے معاملے میں لئے گئے از خود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ کینال روڈ پر ٹریفک کی طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ شہریوں کی سہولت کے لئے نہر کے گرد رہائشیوں کو بھی قربانی دینی چاہئے۔ فاضل عدالت نے سڑک کی توسیع کے لئے کاٹے جانے والے درختوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک کے لئے ملتوی کر دی۔ ادھر لاہور بچاؤ تحریک اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے عدالت کو بتایا کہ لا ہور کینال کی تاریخی حیثیت ہے جسے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ درخت کاٹنے سے شہر کا حسن تباہ ہو جائے گا۔ سڑک کی حالت کو بہتر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ سے مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں یہ تمام دلیلیں بوگس ہیں اور کینال روڈ کی توسیع کا کوئی بھی متبادل ممکن نہیں۔ درخت نئے لگائے جاسکتے اور پلے پلائے بھی لگائے جاسکتے ہیں اور ”تاریخی حیثیت“ والی بات بھی غیر منطقی ہے کہ یہ کون سا پانی پت کا میدان ہے اور ہو بھی تو کیا والٹن ا ور پرانے ایئرپورٹ کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے لیکن آج کا ایئرپورٹ کہیں اور بنانا پڑا۔
اس ایشو پر جسٹس ثاقب نثار کا یہ تبصرہ حرف آخر بھی ہے اور حرف حقیقت بھی کہ…”کینال روڈ پر دیر دیر تک ٹریفک بند رہتی ہے جس کی وجہ سے بچے سکول اور مریض ہسپتال نہیں پہنچ پاتے۔ شہریوں کی سہولت اور سڑکوں کی کشادگی کے لئے اگر درختوں کی کٹائی کرنی پڑ رہی ہے تو ہونے دیں“۔
اور اصل بات تو یہ کہ درخت تو نئے بھی لگ سکتے ہیں لیکن مریضوں اور طالب علموں کی اذیت کا کون سوچے گا؟ کہ اگر درخت قیمتی ہے تو انسان قیمتی ترین اور کوئی اس کا حساب تو لگائے کہ مسلسل ٹریفک جیمز کی شکل میں ہر ماہ کتنے کروڑوں کا فیول خوامخواہ ضائع ہوتا ہے۔
کینال روڈ کی کشادگی اہل لاہور کے لئے عدلیہ کا خوبصورت ترین تحفہ ہوگا!
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.