Javed Iqbal
 
گورکھ دھندا ہے یا ”ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا“۔ موت بیچاری تو مُنی کی طرح خوامخواہ بدنام ہے کیونکہ اصل ظالم تو زندگی ہے جس کے مظالم کی فہرست کسی سپر کمپیوٹر کو بھی دیں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ مائی باپ میں اس کے مظالم کی فہرست نہیں بنا سکتا۔ زندگی ظالم ہی نہیں حیران کن بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ موت یک چہرہ چیز ہے جبکہ زندگی کے چہروں کا شمار ممکن ہی نہیں۔ اس ظالم زندگی کے مظالم اور حیرانیوں کا ذکر پھر کبھی کہ آج اس کے ایک انتہائی دلچسپ پہلو پر غور کرتے ہیں۔
شاید ہی کبھی کسی کا دھیان اس طرف گیا ہو کہ انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار کردار موجود ہیں جنہیں بااثر ترین بھی کہا جا سکتا ہے لیکن درحقیقت انہوں نے کبھی جنم ہی نہیں لیا۔ یہ سب انتہائی طاقتور، مشہور ترین شخصیات ایسی ہیں جو سو فیصد خیالی و تصوراتی ہیں لیکن حقیقی شخصیتوں سے کہیں زیادہ موثر، مقبول اور دیرپا مثلاً مہذب دنیا میں شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو جس نے اپنا بچپن ٹارزن کے ساتھ نہ گزارا ہو اور خود ٹارزن بننے کے خواب نہ دیکھے ہوں۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ٹارزن کا کردار تخلیق کرنے والا امریکن ادیب ایڈگررائس مصنف بننے سے پہلے متعدد پیشوں میں بری طرح ناکام ہو چکا تھا اور اس نے زندگی بھر کبھی کوئی باقاعدہ جنگل بھی نہیں دیکھا تھا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص بھی شاید ہی مل سکے جس نے ڈراکیولا کی خون آشامی نہ دیکھی ہو۔ ڈراکیولا کو اس کے ماں باپ نے نہیں ایک آئرش ادیب برام نے ”پیدا“ کیا اور پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی جبکہ جیمز بونڈ تو سب کے لئے ایسا ہی ہے جیسے کوئی پڑوسی۔ انگریز ادیب ای ان فلیمنگ کے اس کردار نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ سکاٹ لینڈ کا شہرئہ آفاق شون کونری وہ پہلا اداکار تھا جس نے برطانوی سیکرٹ سروس کے اس خیالی ایجنٹ کا کردار نبھایا اور اس میں جان ڈال دی۔ شون کونری کے بعد بہت سے دوسرے اداکار جیمز بونڈ بنے، بہت کامیاب بھی رہے لیکن شون جیسی بات پیدا نہ ہو سکی۔ شون کو ”سر“ کا خطاب بھی ملا۔ میں خاص طور پر سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا شون کونری کا گھر اور اپنے ”استاد“ ایڈم سمتھ کی قبر دیکھنے گیا تھا۔ اسی طرح ڈان کنجوتے بھی ایک عظیم کلاسیکی ناول کا وہ مرکزی کردار ہے جسے ایک ہسپانوی مصنف نے ”جنم“ دیا۔
”گلیوزر ٹریولز“ پڑھے بغیر تو ہمارے زمانے میں کوئی بچہ سکول سے نکلنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کیونکہ جوناتھن سوئفٹ کا یہ ناول نصاب کا حصہ ہوتا تھا سو گلیور اور اس کے ”بونے“ للی پشنیز کو کوئی کیسے بھلا سکتا ہے؟
اسی طرح سیمسن اور ہرکولیس کے کردار جو محاورے بن چکے کہ سیمسن کی بے پناہ طاقت کا راز اس کے بالوں میں پوشیدہ تھا جنہیں ڈیلائیلہ دھوکے سے کٹوا دینے کے بعد بہت پچھتاتی ہے اور ہرکولیس تو ہر کسی کا ”رشتہ دار“ ہے حالانکہ حقیقت کی بجائے اس کا تعلق بھی عظیم یونانی دیومالا کے ساتھ ہے۔ ”پوپائے دی سیلر“ تو دنیا کے سب بچوں کا دوست ہے۔ جب یہ کردار بطور اخباری کارٹون متعارف کرایا گیا تو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کردار دنیا کے مقبول ترین کرداروں میں شامل ہو جائے گا۔ اسی طرح سپائیڈر مین، بیٹ مین اور سپرمین جیسے زبان زدعام کردار۔ ادھر ”ٹام اینڈ جیری“ بھی خیال ہونے کے باوجود حقیقت سے بڑی حقیقت ہیں اوردنیا بھر کے بچے ہی کیا بہت سے بڑے بھی قریبی رشتہ داروں کو تو بھول سکتے ہیں لیکن ٹام اینڈ جیری کے ساتھ سب کا رشتہ اٹوٹ ہے۔
اور کون ہے جو ٹرائے کی حسین ترین ہیلن کو بھولنے کی جسارت کرے؟ ہیلن کے لئے لڑی جانے والی جنگ کا ”ٹروجن ہارس“ بھی محاورے میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہیلن کا نام تو فتنہ ساز حسن کا سمبل ہے ہی۔
”ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم “ سے لے کر ”کنگ کانگ“ تک یقین نہیں آتا کہ یہ کوئی فرضی کردار ہوں گے۔ ان پر بے شمار فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کنگ کانگ کا فین تو کبھی نہیں رہا لیکن ”نوٹرے ڈیم کے کبڑے“ کا میں بچپن سے مداح کیا عشق ہوں۔ ”ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم“ میری زندگی کی وہ واحد فلم ہے جو ٹین ایج میں میں نے چھ سات بار دیکھی۔ اس فلم میں انتھنی کوئین نے کبڑے کا اور جینالولو بریجیڈا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔
برطانیہ کے ادیب آرتھر کانن ڈائل کا ناقابل شکست سراغ رساں شرلک ہومز کوئی جیتی جاگتی ہستی محسوس ہوتا ہے اور جیمز بونڈ سے کسی طرح بھی کم نہیں۔
کیا کوئی ایسا پڑھا لکھا شخص بھی ممکن ہے جس نے زندگی میں کبھی ”پنڈوراز بوکس“ کی اصطلاح استعمال نہ کی ہو یا سنی نہ ہو؟ یہ پنڈورا بھی یونانی دیومالا کا انتہائی پرپیچ کردار ہے۔
”آئیون ہو“ انگریزی زبان کے معروف ترین ناول نگار سر والٹر سکاٹ کے ایک مہم جویانہ ناول کا کبھی نہ بھلا پانے والا کردار ہے۔ میں نے ”ٹاور آف لندن“ میں کئی بار وہ قید خانہ دیکھا ہے جہاں سر والٹر سکاٹ کو قید کاٹنی پڑی تھی۔
”ہیری پوٹر“ کا ذکر نہ کروں گا تو بچے کیا بہت سے بڈھے بچے بھی ناراض ہو جائیں گے لیکن فی الحال اس کا ذکر اگلی قسط کے لئے اٹھا بچا رکھتے ہیں۔
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.