Javed Iqbal
 
ملکی سیاست کے حوالہ سے اک پاکستانی کے طور پر میں ذہنی حوالہ سے مختلف مراحل سے گزرا ہوں۔ ٹین ایج میں تھا جب جواں سال بھٹو سیاسی ستارہ بن کر طلوع ہوا۔ پہلا مرحلہ بھارت سے ہزار سال جنگ لڑنے کے دعویدار بھٹو کی مداحی کا تھا کہ عمر ہی ایسی تھی۔ پھر بھٹو کی بیرحمانہ سفاکانہ موت بلکہ ننگے چٹے عدالتی قتل نے پارٹی کے ساتھ جذباتی وابستگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں جیل، مقدمے، پیشیاں، شوکاز نوٹس اور کرائے کے ڈیکلریشنز کی منسوخی اور پھر خود ساختہ جلا وطنی۔ 1980ء کے وسط میں واپسی ہوئی تو بزنس کے ساتھ ساتھ ”زنجیر“ نامی ماہانامہ بھی لانج کر دیا کہ چور چوری سے جاتا ہے … ہرا پھیری سے نہیں۔ پھر چاروں صوبوں کی ”زنجیر“ بے نظیر بھٹو کی آمد پر یوں محسوس ہوا کہ دیوی آسمانوں سے اتر آئی ہو۔ پہلی بار ”پارٹی“ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی دوران روزنامہ ”مساوات“ کی ادارت سنبھالی اور مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو بتدریج جوش ٹھنڈا پڑتا چلا گیا کہ یوں بھی تب تک جذباتیت کی جگہ بلوغت کا غلبہ شروع ہو چکا تھا۔ میں بتدریج ٹہتا اور کٹتا چلا گیا۔ دوسری طرف میاں صاحب تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے سمبل کے علاوہ کچھ بھی نہ تھے۔ سو دوسرا مرحلہ تھا نیوٹرل ہونے کا۔ اس زمانے میں محترمہ اور میاں صاحب کو اکثر لوگ اپنی اپنی ترجیحات کی بنیاد پر چھوٹی بڑی برائی کہتے تھے تب میں نے پوری قوت و شدت کے ساتھ مسلسل لکھا کہ ان میں کوئی چھوٹی یا بڑی برائی نہیں، دونوں ایک ہی سائز کی برائیاں ہیں جن میں جینڈر کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں۔ دونوں ہی پاور پلے کے خود غرض کھلاڑی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صحیح معنوں میں عوام کا دوست اور ہمدرد نہیں۔ یہ وہ دن تھے جب محاورہ والے ریچھ کتے کی لڑائی عروج پر تھی اور میرے بزرگ ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور انہیں صلح صفائی اور ورکنگ ریلیشن شپ کے مشورے دے رہے تھے۔ میں نے ان قیمتی مشوروں پر بھرپور تنقید کرتے ہوئے دو باتوں کو ہائی لائٹ کیا۔
اول یہ کہ ان دونوں عوام دشمن طاقتوں کے درمیان مصالحت، مفاہمت اور انڈر سٹینڈنگ غریب اور لاوارث عوام کیلئے تباہی کا باعث ہو گی اس لئے ضروری ہے کہ دونوں آپس میں لڑتے لڑتے بالآخر ایک دوسرے کی تباہی کا سبب بنیں کیونکہ عوام تو ان کا بگاڑ کچھ نہیں سکتے۔
دوم یہ کہ بی بی بابو مسلسل جنگ و جدل کے نتیجہ میں جب سب کچھ کھو بیٹھیں گے تو پھر دنیا دیکھے گی کہ یہ دونوں پوری ڈھٹائی کے ساتھ بہن بھائی بن کر ایک ٹرک پر چڑھ کر ”بحالی جمہوریت“ کی تحریک چلاتے نظر آئیں گے۔
ٹرک کی نوبت تو اس لئے نہ آ سکی کہ پرویز مشرف نے ملک میں ان کی اینٹری ہی بین کر رکھی تھی لیکن ہوا من و عن وہی جس کی صدا درویش نے لگائی تھی کہ ٹرک پر نہ سہی … دونوں ”میثاق جمہوریت“ پر جا چڑھے حالانکہ یہ ایک بے معنی، بے مقصد، بوگس اور بیجان دستاویز تھی جو عملاً مشرف کے خلاف ”جمہوری نوحے“ کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ شاعری کی زبان میں بیان کریں تو کہیں گے۔
اپنے اپنے بیوفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہ تھا اور تو کبھی میرا نہ تھا
یہ بات میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ بے نظیر بھٹو زندہ بھی ہوتیں تو اس مسخرے، مضحکہ خیز اور مسخ شدہ ”میثاق جمہوریت“ کا یہی حشر ہوتا کہ اس طرح کے ”میثاق“ کے لئے کسی اور ٹائپ کا سیاسی میٹریل درکار ہوتا ہے… بہرحال پھر وہ فیصلہ کن مرحلہ بھی آ گیا جب میں نے اپنے ساتھ یہ عہد کیا کہ کسی قیمت پر شخصیت پرستی کا شکار نہیں ہونا۔ نہ کسی کو فرشتہ سمجھنا ہے نہ شیطان کہ سیاستدان صرف سیاستدان ہوتا ہے۔ انہیں ہمیشہ ”کیس ٹو کیس“ ہی ڈیل اور ٹریٹ کرنا چاہئے۔ نہ کسی سے نفرت نہ محبت… جو اچھا کرے اس کی تحسین اور جو برا کرے اس پر تنقید۔ شخصیات نہیں ان کی حرکات اور واقعات پر فوکس کیا جائے۔ اس ضروری تمہید کے بعد عرض کروں کہ آزاد کشمیر کے انتخابی معرکہ میں پیپلز پارٹی کی واضح برتری نوشتہ دیوار تھی۔ دھاندلی کے الزامات ہمارے انتخابی کلچر کا حصہ بھی ہیں اور اس مکروہ جمہوریت کا ”حسن“ بھی۔ چند روز پہلے پی پی پی کے رہنما اور ایم پی اے فیاض وڑائچ کے گھر ایک اکٹھ میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنما موجود تھے اور سب اس پر متفق تھے کہ آزاد کشمیر میں پی پی پی کا پلڑا بھاری رہے گا بلکہ کچھ دوست تو وکٹری سٹینڈ پر مسلم کانفرنس کو دوسری اور ن لیگ کو تیسری پوزیشن پر دیکھ رہے تھے سو جو ہوا وہ توقعات کے عین مطابق ہے اور اصل بات یہ کہ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو آئندہ ملکی الیکشنز کے نتائج کا ”دیباچہ“ سمجھیں۔ اول تو پاکستان میں انتخابات دکھائی نہیں دیتے لیکن اگر یہ معجزہ ہو ہی جاتا ہے اور ن لیگ اپنی سوچ اور سٹریٹجی تبدیل نہیں کرتی تو مجھے خدشہ ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتائج آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کا ”ایکشن ری پلے“ ہی ثابت ہوں گے بلکہ عمران خان کی یہاں موجودگی کی صورت میں شاید ان سے بدتر!
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.