Javed Iqbal

موجودہ سیاسی منظرنامہ میں ایک نام بھی ڈاکٹر بابراعوان جیسا نہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا کثیرالجہت نہیں جو تحریر سے تقریر تک اتنا قادر الکلام ہو کہ بولے تو واہ وا اور لکھے تو بے ساختہ سبحان اللہ… میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تعلق صحافت اور سیاست کا تعلق نہیں… میری اک زبان زد عام نعت ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی اور بس کہ مجھے ان کی سیاست اور انہیں میری صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا یہ ”ہزار داستان“ خط انجوائے کیجئے جس میں ”بوسے“ اور ”چٹکیاں“اک دوسرے میں کچھ اس طرح پیوست ہیں جیسے گہری پیاس اور پانی۔
”برادر عزیزم حسن نثار صاحب! سلا م مسنون
”بیلی پور“ کے مہربانوں کے حوالہ سے آپ کا کالم پڑھا۔ مجھے ”بیلی پور“ کے بیلیوں میں سے ایک زائر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وابستگی اور اپنائیت سے مختلف ادوار کے اپنوں کا ذکر آپ نے کیا، اس عادت کو موجودہ معاشرتی تناؤ کے ماحول میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اسے ہر شخصیت کی حیاتیاتی کتاب کی ذاتی تاریخ سمجھتا ہوں اور تاریخ سلاطین ہند اور مشرق وسطیٰ سے قدر ے قیمتی بھی۔ اس لئے ایسی تاریخ کے قدر دانوں کو تکریم نہ دینا تہذیب سے دست کشی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ تہذیب سے دست کشی اور اجتماعی خودکشی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ اجتماع، رش، ہجوم اور ملین مارچ نہیں بلکہ خال خال لوگ ہی تہذیبی روایت کوزندہ رکھتے ہیں۔
یہ کہنا نہایت کنجوسی ہوگی کہ آپ نے اس روایت کو ”بیلی پور“ کی اس رنگین چڑیا کی طرح پالا ہے جس نے ”بیلی پور“ میں آباد ہونے والے پہلے باہمت خاندان کو ایک نئی صبح سے متعارف کرایا تھا مگر ”بیلی پور“ کے جنگلی بلے نے چہچہانے والی اس کمزور چڑیا پرہمیشہ اپنی نظر رکھی جس کی آواز سے ہر روز طلوع سحر کا نقارہ بجتا ہے۔ یہ نقارہ جتنا نرم ہے اتنا میٹھا بھی۔
برادرِ محترم! مجھ جیسے زائرین ”بیلی پور“ کو آپ سے صرف ایک چیز کی امید کبھی نہیں ہوگی اور وہ ہے… امید، آس اور ڈھارس کی تباہی۔ یہ بڑی حد تک سچ ہے اور حقیقت بھی کہ ہر ”بیلی پور“ کی رنگین پروں والی چڑیا پر کسی نہ کسی جنگلی بلے کی نظرضرور ہوتی ہے لیکن جہاں بظاہر نرم اور ”فر“ والے پاؤں میں قاتل اور خونی پنجے چھپانے کی مہارت رکھنے والا جنگلی بلا اس آس میں روزانہ رات کے پچھلے پہر اعلان صبح نو کی آواز کو خاموش کرانے کے لئے حملہ آور ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے، اسی طرح سے زندگی کی آواز بن کر چہچہانے والی چڑیا کا قدرتی الارم ہماری دھرتی ماں کے ان سپوتوں کو روزانہ پھر جی اٹھنے کی امید دلاتا ہے جنہیں سرنڈر کے لفظ سے نفرت ہے۔ جی ہاں سرنڈر پلٹن میدان کے پستول سے لے کر ”بیلی پور“ کے جنگلی بلے کے سامنے روزانہ مزاحمت کی آواز بلند کرنے والی چڑیا تک۔ ہاں یاد آیا اسی کالم میں پروف ریڈر سے یہ کہہ کر آپ نے بہت زوردار ون لائنر مارا ہے… ”عموماً پی جاتا ہوں مگر گزشتہ“… دعاہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ورنہ اب تو کالم کا مکھڑا دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کس کا مقدر ہے۔ سکندر کا قصیدہ گو اور کس بدبخت کا ہجوخواں یا کس کم نصیب کا نوحہ گر ہے۔ کالم میں بے شرم، بے غیرت، بیوقوف، بے حمیت جیسے الفاظ کے تمغے سجانا اس دور کا اعزاز ہے یا شخصی خوبی؟ یہ بحث پھر کبھی سہی۔
کچھ دنو ں میں جسم و جان کو معطر مگر منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کے بادشاہوں کو امیر ترین کر دینے کے دن آ رہے ہیں۔ رمضان شریف کی مبارکباد ایڈوانس قبول کریں۔ اس فرمائش کے ساتھ کہ آپ ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کے لئے قلم اٹھا رہے ہیں۔ کسی کالم میں یہ مدحت رسول لو لکھ دیں۔
”تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا“
خاکسار ڈاکٹر بابر اعوان، اسلام آباد
قارئین! قانون دان اور سیاستدان بابر اعوان اپنی جگہ لیکن ”اصلی“ ڈاکٹر بابر اعوان اس خط کا لکھنے والا ہے جس کے بارے سوچتے ہوئے بے ساختہ یہ مصرعہ یاد آتا ہے…
”میں دریاواں دا ہانی ساں
ترنے پے گئے کھال نی مائے“
ڈاکٹر صاحب کی ایک دو باتوں پر تبصرہ ضروری ہے لیکن پھر کبھی سہی کہ میں فی الوقت اس چومکھے خوبصورت خط کا نشہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔
ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر اپنی نعت کے چند شعر جنہیں میں درود سمجھ کر پڑھتا رہتا ہوں۔
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس لیتا تو اور میں جی اٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
بیچ طائف بوقت سنگ زنی
تیرے لب پر سجی دعا ہوتا
ہجرتوں میں پڑاؤ ہوتا میں
اور تو کچھ دیر کو رکا ہوتا
کسی غزوہ میں زخمی ہو کر میں
تیرے قدموں پہ جاگرا ہوتا
کاش احد میں شریک ہوسکتا
اور باقی نہ پھر بچا ہوتا
تیری پاکیزہ زندگی کا میں
کوئی گمنام واقعہ ہوتا
پیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئی
جس کا پھل تو نے کھا لیا ہوتا
بچہ ہوتا غریب بیوہ کا
سر تری گود میں چھپا ہوتا
مجھ کو خالق بناتا غار حسن#
اور مرا نام بھی حرا ہوتا

 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.