Javed Iqbal

ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ سال میں ایک بار ”یوم تکبیر “ منایا اور باقی ساراسال” یوم کشکول “ …”یوم مہنگائی“…”یوم کرپشن“… ”یوم بیروزگاری “… ”یوم جہالت “… ”یوم دہشت گردی …”یوم خودکشی “… ”یوم غربت“… ”یوم ملاوٹ “ اور ”یوم تجاوزات “ وغیرہ مناتے رہے ۔
معاف کیجئے ” یوم لوڈشیڈنگ “ اور ”یوم گیس “ جیسے اہم ترین ” ایام “ تو میں بھول ہی گیا۔ سچ یہ کہ سال میں اتنے دن نہیں جتنے دکھوں اور دلدلوں کا ہمیں سامنا ہے ۔ منیر نیازی تو دریا کے پار اترا تو اسے صرف ایک اور دریا کا سامنا تھا ۔ یہاں تو ایک کے بعد ایک دلدل… ہمیں تو دلدلوں کی سیریز کا سامنا ہے اور دلدل میں تیراکی بھی کام نہیں آتی بلکہ جتنے ہاتھ پاؤں مارو دھنسنے کے پراسیس میں اتنی ہی تیزی آ جاتی ہے۔
حقیقت کیا ہے ؟
”یوم تکبیر “ یا ہیلری کلنٹن اور مائیک مولن کی تقاریر ؟ جنہیں پیار سے پریس کانفرنس کہا گیا۔ میدے کے پیڑے جیسی ایک عورت انتہائی سرد، دو ٹوک اور ہموار لہجے میں ”یوم تکبیر “ کو بتا بلکہ سمجھا رہی تھی کہ چین اور سعودی عرب سمیت تمہارے دوست تمہاری جتنی ”مدد“ کرتے ہیں ، اکیلا امریکہ اس سے کہیں زیادہ ”دان “کرتا ہے ” جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی “ جیسے نغموں پر دھمال ڈالنے کے شوقینوں کو یہ عورت بتا رہی تھی کہ صحیح کیا ہے ؟ غلط کیا ہے ؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ وہ ”یوم تکبیر “ کو بتا رہی تھی کہ …
”تمہارے اندر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں“
”تمہیں کرپشن ختم کرنا ہو گی“
”امریکہ مخالفت اور سازش تھیوریز سے مسئلے حل نہیں ہوں گے “
” دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرو“
”تمہیں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے “
”پاکستان نے جو کچھ مانگا ہم نے دیا، اب پاکستان کی باری ہے وہ دنیا کیلئے کچھ کرے “
”جب تک پاکستان میں انتہاپسندی ختم نہیں ہوتی اس کا کوئی مستقبل نہیں “
”تعلقات فیصلہ کن موڑ پر ہیں “
”ڈرون حملے بند کرنے سے انکاری ہیں “
”اب بھی جلد سے جلد کرنے والے کئی کام ہیں “
”اسامہ کی کوئی نہ کوئی مدد کر رہا تھا، تاہم اعلیٰ سطح پر کسی کو علم ہونے کا ثبوت نہیں ملا“
”TAKE DECISIVE STEPS“
”HILLARY WARNS TIES AT TURNING POINT“
ایک ہاتھ میں ڈنڈا دوسرے میں ابلا ہوا انڈہ جسے انگریزی میں ”کیرٹ اینڈ سٹک“ کہا جاتا ہے ۔ مختصر اور معتبر تبصرہ یہ ہے کہ ہیلری اور مولن نے ”یوم تکبیر “کو سخت پیغام کے ساتھ ساتھ کلین چٹ بھی دیدی ۔ یہ اور بات کہ کلین چٹ کتنی مدت کیلئے کتنی مشروط ہے اور اگلا راؤنڈ کیسا ہو گا؟
نہ صحت، نہ تعلیم نہ علاج، نہ بجلی نہ گیس نہ صنعت نہ زراعت لیکن … ایٹمی طاقت تو ہے ناں جیسے کسی ننگ دھڑنگ فاقہ کش ان پڑھ نے ہیرے جواہرات سے مرصع دستے والی دو دھاری تلوار تھام رکھی ہو۔ جس نے قوم کی حفاظت کرنا تھی، قوم اس کی حفاظت بارے تشویش میں مبتلا ہے اور لیڈر لوگ ڈائیلاگ بازی سے باز نہیں آ رہے … یہ بدترین قسم کے جرائم پیشہ اور ظالم لوگ ہیں جنہوں نے مکاری سے قوم کو ایٹمی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر یوم تکبیر جیسے جھنجھنے ان کے ایسے ہاتھوں میں تھما رکھے ہیں جن ہاتھوں سے خوش بختی کی لکیریں چرالی گئی ہیں ۔
بھوک لگی ہے ؟ ایٹم بم کھاؤ
ننگ ڈھانپنا ہے ؟ ایٹم بم پہنو
بیمار ہو ؟ انجکشن کی جگہ ایٹم بم لگوا لو
تعلیم چاہئے ؟ ایٹم بم پڑھ لو
اقتصادی اور سیاسی استحکام نہ ہو تو سوویت یونین جیسی سپرپاور کے بھی پرزے گنے نہیں جاتے ۔ نپولین جیسا ملٹری جینیئس بھی مانتا ہے کہ فوجیں پیٹ کے بل رینگتی ہیں مطلب یہ کہ معیشت مضبوط نہ ہو تو کچھ بھی محفوظ نہیں لیکن یہاں جوکروں کا غم غفیر ہے جو تریسٹھ سال میں قوم کو یہ بھی نہیں بتا سکا کہ …
ان کی اصل ضروریات کیا ہیں؟
مہذب معاشرہ کیسا ہوتا ہے ؟
عہد حاضر کے انسان کی ترجیحات کیا ہیں؟
چوکوں ،چوراہوں میں چاغی کے ماڈل، میزائلوں کے مجسمے، جہازوں کے ڈھانچے … اس ”اعلیٰ تعلیم “ کے بعد یہی کچھ ہونا تھا جو ہو رہا ہے ۔
غوری، غزنوی، ابدالی میں سے پنجابی کون تھا ؟ سندھی کون تھا ؟ بلوچی کون تھا ؟ پختون کون تھا ؟ کوئی دو چار ”ہیرو“ مقامی قسم کے بھی ڈال رکھو
اول تو پڑھایا بتایا ہی کچھ نہیں … کچھ کیا بھی تو اکثر و بیشتر جھوٹ جس کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ نتیجہ یہ کہ سوچنے کے عادی آج سر پکڑ کے بیٹھے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ …
حقیقت کیا ہے ؟
”یوم تکبیر “ حقیقت ہے یا ہیلری کی تقریر؟
مجال ہے جو مچھندر کبھی حقیقت کی ہوا بھی لگنے دیں۔

  Let's Study Urdu: An Introductory Course (Yale Language Series) (v. 1)
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.