Javed Iqbal




چور چرواہے، بھیڑیں بھیڑیئے اور توکل ۔۔.. چوراہا…حسن نثار

کچھ الفاظ، کچھ اصطلاحیں بہت خطرناک ہوتی ہیں اور ان کا سطحی ٹریٹمنٹ زندگیاں برباد کر دیتا ہے ۔ انسان اپنے تئیں مثبت جا رہا ہوتا ہے لیکن اصلاً سب کچھ منفی ہو چکا ہوتا ہے ۔ یہ بہت حد تک ہتھیار کی مانند ہے کہ اگر تو ہتھیار کا مالک اس کے درست استعمال سے واقف ہو تو ہتھیار سے کارآمد شے کوئی نہیں لیکن اگر بندہ اناڑی ہے تو وہ ہتھیار بیکار ہی نہیں اپنے مالک کیلئے جان لیوا ہونے کی حد تک خطرناک بھی ہو سکتا ہے ۔ چلئے اس صورتحال کو اک حکایت کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایک آدمی جنگل میں بھیڑوں کو چرا رہا تھا کہ اچانک اسے کوئی کام یاد آیا اور وہ بھیڑوں کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر گھوڑے پر بیٹھ کر گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا جو جنگل سے چند میل کے فاصلہ پر تھا ۔ اتفاق سے گاؤں میں داخل ہوتے ہی اپنے بڑے بھائی سے اس کا آمنا سامنا ہوگیا ۔ اس نے پوچھا … ”بھیڑیں کہاں ہیں “؟ چھوٹے بھائی نے سکون سے کہا … ”جنگل میں “ بڑے نے چیختے ہوئے کہا ” تیرا ستیاناس ہو اتنا بڑا ریوڑ کس کے حوالے کرکے آئے ہو؟ چھوٹے نے پورے اعتماد سے جواب دیا …”توکل برخدا چھوڑ آیا ہوں “ بڑے بھائی نے کہا ”بے وقوف ! تو نے بہت بڑی حماقت کی ہے “ چھوٹے بھائی نے توبہ توبہ کہتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ” بھائی صاحب ! اللہ توکل بھیڑوں کو چھوڑ آنے پر اس حرکت کو غلطی اور حماقت کہنا سخت بے ادبی و گستاخی ہے “ بڑے بھائی نے زچ ہو کر زہریلے لہجے میں کہا ” اے میرے جاہل بھائی ! اگر بھیڑیں خدا کے توکل پر چھوڑ آئے ہو تو یاد رکھو جنگل میں بھیڑیئے بھی تو خدا کے توکل پر ہی پھر رہے ہیں ۔ تم نے تو کل کا مفہوم ہی نہیں سمجھا اور اسے بے حد بھونڈے طریقے سے استعمال کیا جس کی تمہیں ہی نہیں پورے خاندان کو سزا ملے گی کیونکہ بھیڑوں کا یہ ریوڑ پورے خاندان کی مشترکہ ملکیت ہے ۔ آئندہ توکل اختیار کرتے وقت رسول خدا کا یہ فرمان ہمیشہ سامنے رکھنا کہ اونٹ کو اکیلا چرنے کیلئے گھٹنا باندھ کر توکل پر چھوڑو اور ایسے موقعوں پر تمام تر ممکن العمل تدابیر اختیار کرو “
بدقسمتی سے ہمارے ملک اور معاشرہ میں مذہب سے لیکر سیاست اور معیشت تک بیشتر الفاظ اور اصطلاحوں کو صرف MISUSE ہی نہیں بلکہ ABUSE تک کیا جا رہا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا کرنے والے ان کے حقیقی معنوں سے واقف ہی نہیں یا ذاتی و گروہی مفادات کیلئے جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان ”فکری مجرموں“ نے ذہنی اور جذباتی طور پر عام آدمی کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا ہے ۔ زمینی حقائق کو جاننا اور سمجھنا تو دور کی بات ، یہاں تو اس کے الٹ برین واشنگ کر دی گئی ہے ۔ آبادی کا کم از کم پچانوے فیصد لوڈشیڈنگ اور کینسر زدہ معیشت ، بدترین کرپشن اور عدم تحفظ کے اس دہکتے جہنم میں رینگنے کے باوجود احمقوں کی ایٹمی جنت میں قیام پذیر ہے ۔ رہی سہی کسر حضرت اقبال کی شاعری کے غلط استعمال نے پوری کر دی ہے ۔
امریکہ کے ساتھ ٹینشن کے حوالہ سے گامے ماجھے اور للو پنجو بھی سوچے سمجھے بغیر ایران کا حوالہ دیتے وقت بالکل بھول جاتے ہیں کہ ایران کے پڑوس میں اس سے کئی گنا بڑا اور مضبوط ترین معیشت والا کوئی انڈیا نہیں ہے اور نہ ہی ایران نے کشکول گدائی کو تاج شہنشاہی بنا رکھا ہے کیونکہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ پاکستان اس بلبلاتے ہوئے زخمی اونٹ کی مانند ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں اور اس اونٹ کو چلانے والوں کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ۔
ادھر ہیلری کلنٹن نے انڈیا کو خطہ میں تھانیداری اور چودھراہٹ سنبھالنے کا کہاتو یہاں بہت سے لوگوں نے جلتے توے پر بریک ڈانس شروع کر دیا ہے حالانکہ ماتم اس پر کرنا چاہئے کہ ایک تو ہم اپنے حریف ملک سے ویسے ہی کئی گنا چھوٹے، اوپر سے وہ بھی تباہ حال اتنا کہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی محال نہیں ناممکن سمجھو … یاد نہیں اسی متھرا کے پیڑ ے جیسی ہیلری کے سرتاج بل کلنٹن نے کچھ سال قبل اپنے بھارتی دورے کے درمیان کہا تھا،
”امریکہ کی کل آبادی اتنی نہیں جتنی ہندوستان کی مڈل کلاس ہے “
ہندوستان دنیا کی تیز ترین ابھرتی ہوئی چند معیشتوں میں سے ایک بلکہ شاید سرفہرست یا دوسرے نمبر پر ہے جبکہ یہاں؟؟؟کوئی ایک شعبہ ایسا بتائیں جو بدترین اور شرمناک ترین انحطاط اور زوال کی زد میں نہ ہو تو کیا ایسے میں ہیلری کلنٹن ہمیں اس خطہ کی قیادت کی دعوت دے ؟
بھائی ! یہ دنیا ہے کوئی حلوائی کی دکان نہیں جہاں ناناؤں اور داداؤں کی مفت فاتحاؤں کی کھلی چھٹی ہو ۔ عزت اور اہمیت کی خواہش ہے تو اپنی اپنی جان بنانے کی بجائے پاکستان کو جان دار اور شان دار ملک بناؤ اور ہاں پاک امریکہ بگاڑ سے انڈیا ہی نہیں دہشت گرد بھی فائدہ اٹھائیں گے ۔
چور چرواہو! اس ملک کے 18کروڑ پر مشتمل ” ریوڑ “ کو تو کل برخدا چھوڑنے سے پہلے سوچ لو کہ بھیڑیئے بھی خدا کے توکل پر ہی پھر رہے ہیں !
امریکہ کے سامنے مونچھیں ”لیول “ میں رکھو تاکہ انڈیا کے سامنے انہیں ”تاؤ “ دے سکو ورنہ موجودہ حالات میں سمجھ نہیں آئے گی کہ کس بھاؤ بک رہی ہے اور اسی دوران کوشش کرو کہ پٹڑی سے اتر کر گہری کھائی کی طرف رواں دواں یہ ملک ٹریک پر چڑھ سکے لیکن بہت خوف ناک ” کریک ڈاؤن“ کے بغیر ایسا ہونا بالکل ناممکن ہے ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.