Javed Iqbal
 
سیاستدان یا مالکان؟..... چوراہا …حسن نثار
اکستان اک ایسے بپھرے ہوئے دریا کی مانند ہے جسے کچے گھڑوں پرعبور کرنے کی کوشش وخواہش میں تقریباً تین نسلیں تو غرق ہوچکیں… ”باقی جوہیں تیاربیٹھی ہیں“ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟
سچ یہ ہے کہ خشت اول یعنی پہلی اینٹ ہی ایک تو کچی تھی اوپر سے رکھی بھی ٹیڑھی۔ آغازہوا جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں سے۔ جعلی کلیموں کا مطلب ہے کہ جنہیں چھت بھر گھر نصیب نہ تھا انہوں نے بڑی بڑی جائیدادوں کے کلیم داخل کئے اور مختلف حربوں سے منظور بھی کرا لئے۔ چلویہاں تک بھی قابل برداشت تھا لیکن تھوک کے حساب سے ذاتوں کی تبدیلی نے بھی تباہی مچادی، معاشرہ کا چہرہ ہی مسخ کر دیا۔ میرے والد مرحوم و مغفور و دیگرفیملی جالندھر، امرتسر اور لدھیانہ سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ تین شہروں سے گہرے تعلق کی بنا پر جان پہچان، واقفتیں، آشنائیاں بھی ظاہر ہے اسی حساب سے تھیں سو زندگی بھر ہر سال میرے والد پانچ سات ”کیس“ ایسے ”پکڑ“ لیتے بلکہ یوں کہئے کہ اتفاقاً ان کے سامنے آ جاتے اور پھرہفتوں گھر میں اس کا چرچا رہتاکہ فلاں فلاں جالندھر، امرتسر، لدھیانہ میں تو پشتینی فلاں تھا لیکن پاکستان پہنچ کر سید، ملک، لودھی، شیخ یاراجپوت بن گیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ تب نہ بات سمجھ آتی تھی نہ باپ کا کڑھنا کہ کوئی جولاہا جاٹ بن گیا توہمیں کیا؟… اب سمجھ آتی ہے کہ وہ ذات کی تبدیلی نہیں دراصل جعل سازی پر کڑھا کرتے تھے۔ لمبی فہرست ہے لیکن تابوت میں آخری کیل تب ٹھکا جب اک خاص قسم کی سیاست در آئی۔ آج جنہیں ہم ”لیڈران“ سمجھتے ہیں وہ درحقیقت ”مالکان“ ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں نہیں ”دکانیں“ ہیں اور یہ سیاست نہیں ”سول پروپرائٹرشپ“ کے جلوے ہیں۔ سیاسی جماعت توکہانی ہی اور ہے۔ یہ توسیاسی دکانیں، فیکٹریاں اور ملیں ہیں جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں کہ اولاد نالائق بھی ہو توباپ کی جائیداد کی وارث ہوتی ہے۔ ایسے میں میرٹ کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ پیارے آگے آئیں گے یا چمچے، رشتہ دار آگے آئیں گے یا یار یعنی اگر سیاست جیسے اہم ترین شعبہ میں ہی میرٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تو او ر کسی محکمہ یا شعبہ میں میرٹ نافذ یا مسلط ہو بھی جائے تو کوئی مستقبل نہیں سو یہ نام نہاد جمہوریت اصل میں آمریت اور شہنشاہیت سے بھی کئی گنا زیادہ غلیظ، مکروہ اور عوام دشمن ہے اور اس سے بڑا بے حس کوئی نہیں جوایسی کسی بھی ”سیاسی دکان“ یا”جمہوری جاگیر“ کیساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھ کر اس کے استحکام کا باعث بنے لیکن اگرمختلف گروہ ایسی مختلف ”جاگیروں“ کے ساتھ مزارعوں کے طور پر اس لئے وابستہ ہیں کہ یہ ان کی روٹی روزی ہے۔ اسی وابستگی کے سبب یہ کروڑوں اربوں کا سیزن لگاتے اوربہت سی بے عزتی کے عوض تھوڑی سی ”عزت“ کماتے ہیں حالانکہ وہ بھی بے عزتی ہی ہوتی ہے۔ میں مین سٹریم پارٹیوں کے بہت سے لوگوں کوجانتا ہوں جو اپنے اپنے لیڈران یعنی مالکان سے بری طرح تنگ نجی محفلوں میں انہیں گالیاں تک دیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ چمٹے اورچپکے ہوئے ہیں۔ ان میں ایسا ایسا دبنگ دروغ گو موجود ہے کہ الامان الحفیظ خود تو چھوڑیں جن کے والدین بھی بدترین آمروں کے دست و بازو رہے وہ بھی پکے پکے منہ بنا کرجمہوریت کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی شوریٰ اورکیبنٹ کی رونقیں بڑھانے والے بھی جب ”شہید“ بھٹو اور”شہید“ بی بی کے قصیدے پڑھتے ہیں تو خوف آتا ہے کہ جس دھرتی کے کرتے دھرتے اتنے جھوٹے، ڈھیٹ اور منافق ہیں… قدرت اس دھرتی کے بارے کیا سوچ رہی ہوگی؟ کیسی سزا دے گی؟
ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ انڈین کرنسی تو کیا… بنگلہ دیشی ”ٹکے“ کے سامنے بھی ہمارا پگھلتا ہوا روپیہ ٹکے ٹوکری ہوچکا ہے۔ بھارت کے کافر سیاستدان متحد ہو کر کرپشن کے خلاف گرینڈالائنس تشکیل دے چکے جبکہ ہمارے سیاسی سول پروپرائٹرز اک ایسے گرینڈ الائنس کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں جس کا کوئی معنی خیز ٹارگٹ ہی نہیں۔پاکستان کے اہم سیاستدان یعنی پارٹی مالکان آج کل اپنے اصلی دارالحکومت لندن میں موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاسی کاروباری پاکستان کے لئے اس بارکون سامنحوس پلان لے کر آتے ہیں۔ اگلا الیکشن… ”اگر“ہوتا ہے تو پاکستان کے عوام کیلئے ان سے جان چھڑانے کا شاید آخری موقعہ ہوگا کہ پاکستان ایک ایسے بپھرے دریا کی مانند ہے جسے ان جیسے کچے گھڑوں پربیٹھ کر عبور کرنے کی کوشش میں جانے کتنی نسلیں غرق ہوچکیں اور کیا واقعی… ”باقی جو ہیں تیار بیٹھی ہیں؟‘

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.