Javed Iqbal

 

جمہوری و غیر جمہوری وزیر مشیر…چوراھا…حسن نثار

ماضی کے ”غیر جمہوری“ حکمران اپنی اپنی کابینہ کے لئے دانش مند اور دور اندیش لوگوں کا انتخاب کیا کرتے تھے تاکہ انہیں اعلیٰ ترین مشاورت دستیاب ہو۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر سے لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ تک بلکہ ان سے بھی بہت پہلے بنو امیہ، بنو عباس اور ان سے بھی بہت پہلے اچھے حکمران اپنے گرد بہترین دماغ جمع کرتے تھے کہ حکمرانی کے لئے اہم ترین صفت ہوتی ہی مردم شناسی ہے کیونکہ کوئی شخص بھی ہر شعبہ کا ماہر نہیں ہوسکتا ۔ مختلف شعبوں کے جینوئین ماہرین جمع کرنا یعنی ”رائٹ مین فار دی ر ائٹ جاب“ ہی کلید کامیابی ہے جبکہ ہمارے آج کل کے نام نہاد جمہوری اور منتخب حکمرانوں کا معیار کیا ہوتا ہے؟
نام نہاد قربانی یا قربانیاں۔
ذاتی وفا داری بلکہ چمچہ گیری۔
دیہاڑیاں لگانے کی اہلیت اور حصہ پہنچانے کی ”دیانت“ ۔
مختصراً یہ کہ کوئی ایک معیار بھی ایسا نہیں جس پر کوئی باعزت و باشعور آدمی پورا اتر سکتا ہو(مستثنیات بہرحال موجود ہوتی ہیں) سو جہاں کسوٹیاں ہی اس قسم کی ہوں وہاں کارکردگیاں بھی ایسی ہی ہوں گی جیسی ہم بھگت رہے ہیں۔ مثلاً راجا پرویز اشرف صاحب لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی تاریخیں دیتے دیتے خود تاریخ بن گئے لیکن لوڈشیڈنگ کی لعنت نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کے دورانیوں میں بھی مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے فیورٹ وزیر خارجہ بارے پڑھتے ہوئے یاد آئیں تو سوچا کہ فقیر عزیز الدین وزیر خارجہ رنجیت سنگھ کی ذہانت، بصیرت، برجستگی، حاضر جوابی اور دور اندیشی کے ایک دو واقعات اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کروں۔
فقیر عزیز الدین کو مہاراجہ بہت عزیز رکھتا ۔ یہاں تک کہ فقیر کے علاوہ اور کوئی شخص مہاراجہ کے محل خاص میں بلا اجازت داخل نہ ہوسکتا تھا۔ ایک روز حسب معمول فقیر عزیز ہاتھ میں تسبیح لئے مہاراجہ کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے مہاراجہ بھی اس وقت بیش قیمت موتیوں کی مالا لئے رام نام جپ رہے تھے اور ہندوؤں کے انداز میں مالا کے دانے باہر سے اندر کی طرف پھینکے جاتے تھے اور فقیر عزیز الدین ظاہر ہے مسلمانوں کے دستورکے مطابق تسبیح کے دانے اندر سے باہر کی طرف پھینکتے جا رہے تھے۔ مہارجہ کچھ دیر تو چپ چاپ چاپ میں مگن فقیر صاحب کے انداز تسبیح کو دیکھتا رہا پھر اچانک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی اور اس نے اپنی مالا ایک جواہرات جڑی طلائی طشتری میں رکھتے ہوئے فقیر عزیز الدین سے پوچھا!
”مالا یا تسبیح کے دانوں کا باہر سے اندر کی طرف کھینچنا بہتر ہے یا اندر سے باہر کی طرف پھینکنا زیادہ بہتر ہے؟“
یہ ایک ایسا پیچیدہ، بے ڈھب، بے تکا اور اچانک قسم کا عجیب سا سوال تھا جس کا جواب بہر دو صورت مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طبیعت پر گراں گزر سکتا تھا یعنی فقیر عزیز اگر مہاراجہ کے طریقہ کی تائید کریں تو سوال پیدا ہوتا کہ فقیر صاحب خود کیوں اس کے خلاف کر رہے ہیں اور اگر اپنے طریق تسبیح کو اچھا کہیں تو اس میں مہاراجہ کی سبکی کا پہلو نکلتا تھا لیکن سبحان اللہ فقیر عزیز الدین نے دانائی میں بھیگا ہوا کیسا زبردست جواب دیا۔ فقیر صاحب نے فرمایا: ”حصول خیر کے لئے باہر سے اندر کو کھینچنا اچھا ہے اور دوسری طرف دفع شر کے لئے اندر سے باہر پھینکنا اچھا ہے“۔ اسی طرح ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ، ان کا ولی عہد کھڑک سنگھ اور کھڑک سنگھ کا بیٹا کنور نو نہال سنگھ محل خاص میں اکٹھے بیٹھے تھے کہ فقیر عزیز الدین بھی پہنچ گئے۔ امور خارجہ پر سیر حاصل گفتگو کے بعد مہاراجہ نے اچانک فقیر صاحب سے دریافت کیا۔ ”ہم تینوں میں سے زیادہ خوش نصیب کون ہے؟“یہ بھی ایک بے سرا سوال تھا کہ فقیر صاحب جس کے لئے بھی زیادہ خوش بختی کی بات کرتے تو باقی دونوں کی دلآزاری کا امکان تھا۔ فقیر صاحب نے کچھ دیر سوچا اور پھر نپے تلے لہجے میں جواب دیا: ”میں تو ولی عہد کھڑک سنگھ کو ہی خوش نصیب خیال کرتا ہوں جن کو مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسا بلند اقبال، نامور باپ اور نو نہال سنگھ جیسا اسم بامسمٰی بیٹا ”نو نہال“ ملا ہے“۔ ایک جواب نے تین نسلوں کو راضی کر دیا اور یہی فقیر عزیز الدین تھے جنہوں نے انگریزوں کو اس طرح ہینڈل کیا کہ خود انگریز عش عش کر اٹھے۔ اسی طرح ایک بار تند خو احمد شاہ قاچار والی ایران نے اپنے وزیر خاص حاجی مرزا آقاسی سے کہا! ”مرزا! دور دور تک تمہاری دانائی کی دھوم مچی ہے۔ ذرا یہ تو بتاؤ کہ سامنے والے تالاب میں کتنے پیالے پانی ہوگا؟ ”حضور صرف اتنا ارشاد فرما دیں کہ پیالہ کتنا بڑا ہے۔ اگر پیالہ آدھے تالاب کے برابر ہو گا تو دو پیالے پانی تالاب میں ہوگا ا گر پیالا تالاب کا تہائی ہوگا تو تین پیالے، اگر چوتھائی ہوگا تو چار پیالے… اگر پیالہ ہزاروں حصہ ہوگا تو ہزار پیالے۔ علی ہذا القیاس… غیر جمہوری حکمرانوں کے وزیر مشیر تو میرٹ پر منصب پاتے اور حکمت و دانائی میں بے مثال ہوتے جبکہ ہمارے جمہوری کلچر میں منصف کے معیار ہی مضحکہ خیز ہیں۔ دونوں نام نہاد میں سٹریم سیاسی پارٹیوں کی مین لیڈر شپ پر ایک ایک کرکے غور کریں کہ ان میں سے کون کس سبجیکٹ کا سپیشلسٹ ہے؟ سوائے چپڑ چپڑ گھسی پٹی باتیں یا جوڑ توڑ کے علاوہ ان کے پلے کیا ہے؟ ان سب میں سے اکثریت نے سکول و کالج کے بعد شاید ہی کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو تو ایسے لوگ… لوگوں کیلئے عذاب اور سراب کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتے ہیں؟۔

 

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.