Javed Iqbal
میں چند مخصوص اور محدود حوالوں سے شدید ترین تنہائی کا شکار ہوں کیونکہ اپنے چند خیالات کسی کیساتھ بھی شیئر نہیں کرسکتا اور وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ان خیالات کی اس ”معاشرتی منڈی“ میں مانگ ہی کوئی نہیں۔ جہاں سوچ بچار کی بجائے سنسنی خیزی کا رواج ہو… لوگ دھرنوں، ریلیوں، جلسوں، جلوسوں، احتجاجوں، بند راستوں اور جلتے ہوئے ٹائروں جیسے ”تخلیقی و تعمیری“ کاموں میں مست ہوں وہاں کسی بھی سیدھی سادی اور ڈھنگ کی بات کا کوئی مول نہیں۔ کوئی مثبت بات کرو تو لوگ بٹ بٹ یوں دیکھتے ہیں جیسے دماغ الٹ گیا ہو۔
ایسے ہی چند خیالوں میں سے ایک کا اظہار میں کئی بار کر چکا کہ یہ ملک جس مرحلہ میں داخل ہے وہاں ”گڈ گورننس“ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ ”گڈ گورننس“ وہاں نتیجہ خیز ہوتی ہے جہاں سب کچھ Intactاور نارمل ہو۔ پاکستان جیسا ہر حوالے سے ادھڑا ہوا ملک گڈ گورننس سے بہت آگے نکل چکا اور اسے اس دلدل سے نکلنا ہے تو صرف
ایک راستہ ہے اور وہ فقط گڈ گورننس نہیں بلکہ Creativeگورننس کا راستہ جس کی بے حد خوبصورت اور Creativeمثال پنجاب گورنمنٹ کا یہ منصوبہ ہے جس کے تحت سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ کیلئے ”کچن گارڈننگ“ کوپروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس شاندار تخلیقی منصوبہ پر عملدرآمد کے لئے تحصیل، ضلع اور صوبائی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں، منصوبہ کی نگرانی صوبہ کا سربراہ خود کرے گا جس نے میڈیا سے باقاعدہ درخواست کی ہے کہ اس حوالہ سے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
کیا میڈیا اس طرف متوجہ ہوگا؟
ہرگز نہیں کیونکہ اس ”سبزی اگاؤ مہم“ میں بظاہر کوئی ایکشن، تھرل اور سنسنی موجود نہیں… یہ ا یک ”ٹھنڈا “ سا کام ہے جبکہ میڈیا کو مرچ مصالحے، گرما گرم پوریوں، چٹپٹے پکوڑوں اور کراری چاٹ کی چاٹ پڑ چکی ہے سو میاں شہباز شریف کو میڈیا سے ذاتی مکالمہ کرکے بتانا ہوگا کہ اس مہم کا مقصد و مطلب کیا ہے؟ یہ کام کس قدر مثبت، بامعنی اور تعمیری ہے۔
بیچارے کسانوں کو تو ملتا کچھ نہیں جبکہ یہ آڑھتیئے، یہ پھڑیئے، دلال اور دکاندار بے حیائی سے عوام کی کھالیں اتارتے اور جیبیں کاٹتے ہیں حالانکہ سبزیوں والی اس چور بازاری، اندھی منافع خوری اور بلیک میلنگ سے باآسانی نمٹا جاسکتا ہے۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور غریب سے غریب گھر ایسا نہیں جو سبزیاں نہ اگا سکے کیونکہ سبزیاں تو گملوں اور ٹین کے ڈبوں میں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔ پنجاب حکومت پہلے مرحلہ میں 30ہزار بیجوں کے پیکٹ (Seed Kits)تقسیم بھی کر چکی۔ شہباز شریف نے سچ کہا کہ بدترین مہنگائی کے موجودہ دور میں گوشت کے بعد سبزیاں بھی سفید پوشوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، سوکچن گارڈننگ کے منصوبہ کو فروغ دے کر نہ صرف سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی کمی اور استحکام لایا جاسکتا ہے۔
یہ ہے Creativeگورننس کی اک سادہ سی مثال۔ گیند اب عوام کے کورٹ میں ہے جنہیں ”غیور“ اور ”باشعور“ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا، لغویات و فروعات سے نکل کر اس کال پر لبیک کہنا ہوگا کہ ہروقت ”پھوڑی“ سجا کر محو ماتم رہنا مسائل کا حل نہیں ہے اور ہر کام کے لئے حکومت کی طرف دیکھنا بھی ”غیوری“ اور ”باشعوری“ نہیں پرلے درجہ کی جہالت اور حماقت ہے۔ صوبائی حکومت نے ایک بہترین منصوبہ اور بھرپور معاونت مہیا کرکے اس سلسلہ میں ”حق حکومت “ ادا کر دیا… عوام بھی اتنے ہی جوش و جذبہ سے اپنا حصہ ڈالیں جیسے بیکار ریلیوں اور جلسوں میں ڈالتے ہیں۔ سپر پاور سے نمٹنے کے دعویدار اگر خود اپنے لئے سبزیاں بھی نہ اگا سکیں تو لعنت ہے مجھ پر جو ”نیکی‘ اور ”قومی فریضہ“ سمجھ کر یہ کالم لکھ رہا ہے۔
خود میں یہ کام عرصہٴ دراز سے کر رہا ہوں۔ اس وقت بھی بھنڈی، کریلے، کدو، ہری مرچ، مختلف اقسام کی پھلیاں، تریں (ککڑیاں)، کھیڑے اور لوبیا وغیرہ تیار ہیں۔ میرا گھرانہ صرف چھ افراد پر مشتمل ہے اور میں یہ ایکسر سائز ملازمین اور ان کی فیملیز کے لئے کرتا ہوں۔ ایک چھوٹی سی کیاری کی سبزی کئی کنبوں کے لئے کافی ہو تی ہے۔ لیموں کے ایک پودے کا پھل سنبھالا نہیں جاتا۔ اس نیک کام کا اک اور خوبصورت پہلو یہ کہ بچوں کی پرورش میں اس کا کردار بہت دلچسپ ہے۔ زمین ہے تو بچوں میں ایک ایک کیاری بانٹ دیں کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ زمین نہیں تو گملوں میں جو جو کچھ اگ سکتا ہے۔ اگائیں اور گملے اپنے بچوں کے نام لگا دیں کہ فلاں بچے نے فلاں فلاں گملے کو پانی دینا، اس کی گوڈی کرنی اور فالتو جڑی بوٹی نکالنی ہے۔ یہ ڈرل بچوں میں ایک عجیب قسم کا احساس ذمہ داری، سینس آف پرائیڈ، ڈسپلن اور خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ آزما کر دیکھ لے۔
مختصراً یہ کہ اس منصوبہ کے نتائج سے میں ذاتی طور پر بے شمار نتائج اخذ کر سکوں گا کہ اس معاشرہ میں کتنا دم خم باقی ہے؟کتنا شعور اور احساس موجود ہے؟ فائٹنگ سپرٹ کتنی ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور اگر خدانخواستہ یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو مجھے اس میں کوئی شک باقی نہ رہ جائے گا کہ… عوام کے ساتھ جو جو کچھ ہو رہا ہے وہ سو فیصد درست ہے اور ہم سب ایسے ہی سلوک کے مستحق ہیں۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.