Javed Iqbal

کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھتے ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں۔ اکیس سال کی عمر میں مجھے پاکستان کے مقبول ترین ماہنامہ ”دھنک“ کا جائنٹ ایڈیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو اس میں میری صلاحیت سے زیادہ ”دھنک“ کے پبلشر، ایڈیٹر اور رسپانسر سرور بھائی (سرور سکھیرا) کی ”اقرباء پروری“ کا ہاتھ تھا۔ تب سے لے کر اب تک قارئین کی بے کراں محبت مجھے حاصل ہے۔ میرے ”مداحین“ میں ایسے بیشمار لوگ بھی شامل ہیں جن کا میں خود بہت بڑا فین تھا مثلاً احمد فراز سے لے کر قتیل شفائی مرحوم و مغفور تک جو اکثر اپنے بیٹے نوید قتیل براستہ یار غار ابرار بھٹی مجھے طلب فرما لیتے۔ وہ شام مجھے کیسے بھول سکتی ہے جب لیجنڈ گلوکارہ اقبال بانو مرحومہ نے فون کیا اور میری شریک حیات سے بات کرتے ہوئے کہا۔
”وعدہ کرو کہ تم بچوں سمیت حسن صاحب کو لے کر آؤ گی۔“ ”تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے“ میں تو خود ان کا عاشق تھا سو حاضر ہو گئے اور اک ایسا رشتہ معرض وجود میں آیا جس کی Defination ہی ممکن نہیں۔ ڈانسنگ ڈول اور غضب کی پرفارمر ریما نے اک بار جب میری تحریروں کی تعریف کی تو میں سمجھا تکلف سے کام لے رہی ہے، اک ایکٹرس کا میرے کالموں سے کیا کام؟ لیکن تقریب کے خاتمہ پر جب اس نے میرے مختلف کالم کوٹ کرنے شروع کئے تو میں اندر ہی اندر پگھلتا اور شرمندہ ہوتا رہا۔ اسی طرح بھارت یاترا کے دوران اردو کے دیو قامت ناول نگار عبداللہ حسین نے جب یہ کہا کہ ”یار! تمہاری ’ٹرمنالوجی“ تو ہمارے گھر میں استعمال ہوتی ہے“
اسی طرح شکیل عادل زادہ کسی دیو مالائی کردار سے کم نہیں۔ ماہنامہ ”دھنک“ تو سوسائٹی میگزین تھا لیکن ماہنامہ ”سب رنگ ڈائجسٹ“ کوب ھی سنگ میل سے کم کیا کہیں۔ شکیل بھائی جب کبھی داد دیتے ہیں تو 24 گھنٹوں کے لئے بھوک پیاس سے ماورا مدہوش سا ہو جاتا ہوں اور ہر شے ”منی ایچر“ سی لگنے لگتی ہے۔
سیاستدانوں کو عموماً لکھنے پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی لیکن ملک معراج خالد صاحب مرحوم و مغفور کی تو بات ہی اور تھی۔ محبت سے جب ”مرشد“ کہتے تو میں ہمیشہ ان کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کہتا… ”مجھے شرمندہ نہ کیا کریں“۔ میں نے جب اپنی بستی ”بیلی پور“ کی بنیاد رکھی تو ملک صاحب نے یہ جگہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تب ”بیلی پور“ جھاڑیوں اور ٹیلوں سے اٹا اک بھیانک ویرانہ تھا جہاں کوئی آوارہ جنگلی کیکر تک بھی موجود نہ تھا۔ ملک صاحب یہ ویرانہ (جہاں آج ہزاروں سربلند درخت ہیں) دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ اجنبی جگہ پر جائیں تو وہاں کے کچھ مقامی لوگوں سے تعلق تعارف ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ کے گاؤں ”سلطان کے“ میں میرا دوست رانا عمر دراز خان رہتا ہے۔ وہ ”بیلی پور“ والوں کی دعوت کرے گا تاکہ آپ اور آپ کے دوست مقامی لوگوں سے متعارف ہو سکیں۔ تب ہم جیسے شہری بابوؤں کو ایسی دعوت کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہ تھا لیکن طے شدہ دن اور وقت پر پہنچ گئے اور یوں اس علاقہ کی اک اہم ترین فیملی کے سربراہ سے اک گہرے تعلق کی ابتداء ہو گئی۔ رانا عمر دراز خان بھٹو صاحب کے زمانے میں یہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ چند سال پہلے کار ایکسیڈنٹ میں اچانک بچھڑ گئے اور رانا جاوید عمر خان جو کبھی کبھی میرے کسی کالم سے جھانکتا ہے، انہی عمر دراز خان کا سست الوجود صاحبزادہ ہے جو ناظم بھی رہ چکا اور میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے جس میں بڑے رانا صاحب کی ہر صفت موجود ہے سوائے عوامیت کے لیکن یہ میرا موضوع نہیں۔ موضوع تو یہ ہے کہ ”صدیوں“ لکھنے کے دوران مجھے کیسے کیسے مداحین، ان کی محبت، دعائیں اور حوصلہ افزائی نہ ملی۔
بیشمار گمنام لوگوں کی محبت تو بیان سے باہر سمجھیں …کسی کالم سے اندازہ ہوا کہ مجھے ساگ پسند ہے تو ساگ کے ڈھیر لگ گئے۔ ایک بار گوبر کی کھاد نہ ملنے کا حوالہ دیا تو ”بیلی پور“ میں گوبر کی پہاڑیاں بن گئیں، اک صاحب تھے اللہ انہیں غریق رحمت کرے نام تھا شاکر اللہ آفریدی جو عجیب و غریب ”تحائف“ بھیجتے رہتے اور فون پر ہمیشہ میری شریک حیات سے کہتے
”دیکو! اپنے مجازی کھدا کا خیال رکھو بچہ! وہ اس ملک کے لئے بہت ”فائدہ ناک“ آدمی ہے۔“ زندگی بھر ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔
اپنے لئے ”فائدہ ناک“ کی اصطلاح نہ پہلے کبھی سنی نہ بعد میں … کوئی سکردو سے چیریاں بھیج رہا ہے اور وہ بھی براستہ منو بھائی ہر سال جانے کتنے لوگ مجھے عمرے کے لئے ”سپانسر“ کرنا چاہتے ہیں تو میں عرض کرتا ہوں کہ میں سالوں پہلے درجنوں بار یہ سعادت حاصل کر چکا ہوں، بہتر ہو گا۔ یہی رقم کسی بچی کے جہیز یا بچے کے تعلیمی اخراجات پر خرچ کریں اور میرا شکریہ قبول فرمائیں۔“ مختصراً یہ کہ مجھے مداحین کی محبت کا لامحدود تجربہ ہے لیکن اک حالیہ تجربہ بہت ہی معصوم، عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہے۔
محلہ سیداں اگوکی ضلع سیالکوٹ سے سید ظفر اقبال کا طویل خط ہے جس کا صرف ایک پیرا پیش خدمت ہے۔
”میں ایک چھوٹا سا دکاندار ہوں۔ باربی کیو کا چھوٹا سا کام ہے۔ رات بھر تقریباً 2 بجے کے قریب گھر لوٹتا ہوں۔ آپ اپنے خیالات کے باعث 18 کروڑ لوگوں میں تنہاء دکھائی دیتے ہیں تو میں بہت دکھی ہو جاتا ہوں۔ میں اس خط کے ساتھ اک چھوٹا سا چیک بھیج رہا ہوں۔ آپ ان پیسوں سے میری طرف سے آئس کریم کھایا کرنا وجہ یہ کہ جس طرح آپ کی تحریروں اور بے لاگ باتوں سے میرے دل دماغ کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے اس طرح میری طرف سے آپ کو بھی کچھ لمحے ٹھنڈک اور سکون ملے۔“
خط کے ساتھ ایک چیک بھی ہے جسے میں نے فریم کرا لیا۔ سچ یہ کہ ایسی محبتیں اور خلوص ہی ہے جس نے کبھی بہکنے یا بھٹکنے نہیں دیا۔ اپنے قارئین کے ساتھ تجدید عہد کے طور پر عہد ساز شاعر ڈاکٹر ریاض مجید کی ایک نظم کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
”میں تجھے بھول جاؤں اگر
مرا داہنا ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے“
نوٹ: میں عموماً پی جاتا ہوں لیکن گزشتہ کالم میں پروف کی غلطیوں کے علاوہ ایک دو جگہ پوری پوری سطر غائب ہے۔ مہربانی فرما کر اپنی کامن سینس کے زور پر خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کیا تھا۔ 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.