Javed Iqbal



aug08-11


اندر کی تصویریں:۔
عقل کے اندھوں میں کچھـ کانے راجوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش نےپاکستانی فلم انڈسٹری کوبرباد کردیاہے۔ ان کے خیال پرمیرا ذاتی خیال یہ ہے کہ حسب معمول اورحسب روایت ہم اپنی نااہلیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال رہے ہیں۔ مالی، فکری اور تکنیکی اعتبارسے بری طرح پٹ جانے والوں کو شاید معلوم نہیں کہ آج جو فلم نیویارک اور لاس انیجلس میں ریلیز ہوتی ہے اگلے ہی روز پیرس اور لندن میں دکھائی جاتی ہے۔ اسے سے اگلے روزبیروت اور میناگوا میں اور پھر چند ہی دنوں بعد اس کی نمائش پوری دنیامیں ہورہی ہوتی ہے۔یہ فلمیں کروڑوں ڈالرزکابزنس کرتی ہیں لیکن وہاں کوئی دہائی نہیں دیتاکہ ہماری فلم انڈسٹری تباہ ہورہی ہے۔
اک جاپانی کہاوت ہے کہ "کوئی شخص بہتی ندی میں ساکت کھڑارہ سکتاہے لیکن انسانوں کی دنیامیں نہیں۔" گویاوقت کےساتھـ ساتھـ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرنے والے مشکلات کاشکار ہوجاتےہیں۔ ہمارےساتھـ بھی یہی کچھـ ہوا، آج ہماری فرسودہ اوریکسانیت کاشکارفلمیں موجودہ حالات کامقابلہ نہیں کرپاتیں اور فلاپ ہوجاتی ہیں بلکہ اب توفلم بنانابھی بہت بڑا رسک بن چکاہے،اسی لئے ہماری فلم انڈسٹری بربادی کا شکارہے۔ ہم نے 70ء کی دہائی تک ہی بہترین اورمعیاری فلمیں پروڈیوس کیں۔ اس وقت تک ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی تعلیم یافتہ، سنجیدہ،تخلیق کار، باشعور اور صاحب کمال لوگ فلم انڈسٹری سے منسلک تھے۔ گویایہ فن اورفنکار کااک سنہری دورتھا۔ جس میں اسکرپٹ، میوزک،ڈائیلاگ اورشاعری پر بھرپورتوجہ دی جاتی،پڑھے لکھے اداکاربھی کردارکی مناسبت سےخودکواس میں ڈھالنے کی بھرپورصلاحیت رکھتےتھے۔ لہذا اس وقت تک انڈین اورپاکستانی فلموں کامعیار اوراندازلگ بھگ ایک جیساتھاپھروقت کےساتھـ ساتھـ ہمارے کچھـ پرانے اورخوبصورت لوگ اس دنیاسے رخصت ہوگئے اور فلم انڈسٹری کاتخلیق کار سنجیدہ طبقہ ناپید ہوتاچلاگیاجوفلم کوآرٹ سمجھاکرتاتھاپھران کی جگہ نودولتیے، ناتجربے کار اورجاہل لوگ ہماری فلم انڈسٹری میں گھس بیٹھے جوفلم کو صرف پیسہ کمانے کاذریعہ سمجھتےتھے۔ فلم کی تکنیک ، خوبصورت کہانی، بہترمعیار اور تخلیقی صلاحیت سےمحروم ان لوگوں نےپاکستانی فلم انڈسٹری کوگجری اور جٹی سے وحشی گجر اور جٹ دا کھڑاک جیسی فلموں کےحصارمیں جکڑدیا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔اس کےبرعکس انڈین فلم انڈسٹری نےوقت اور حالات کے مطابق جدت اختیارکی ، نت نئے موضوعات کواپنایا، فلم کے ہرشعبے پرتوجہ دی اور اپنی فلم انڈسٹری کوثمرآوربناڈالا۔ایسانہیں کہ ان کی فلمیں فلاپ نہیں ہوتیں لیکن زیادہ تراپنی لاگت پوری کرہی لیتی ہیں جبکہ انکی چھوٹی فلموں کا بجٹ بھی ہماری بڑی فلموں سےکہیں زیادہ ہوتاہے۔ہماری کم بجٹ کی فلم بھی اپنی لاگت پوری نہیں کرپاتی۔ دوسری اہم وجہ یہ کہ ان کی فلمیں کئی ملکوں میں ریلیزہوتی ہیں جبکہ ہماری فلمیں تو پورےملک میں بھی ریلیزنہیں ہوتیں۔ پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش کی اجازت توابھی کل کی بات ہے مگرپاکستانی فلم بینوں نے توبہت پہلے سےہی سینماگھروں کو خداحافظ کہہ دیاتھا۔
سچ تو یہ ہےکہ ہمارےاندرکی تصویروں سے ہی ہمارے رویےجنم لیتےہیں جومثبت اورتعمیری بھی ہوسکتےہیں۔ منفی اور تخریبی بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مناسب یہی ہےکہ پہلےہم اپنے اندرکی تصویریں تبدیل کریں تاکہ ہمارےرویے بہتراورتعمیری ہوسکیں۔ آج ہم اپنی فلم انڈسٹری کی بربادی کاذمےدارانڈین فلموں کو قراردےرہےہیں توکل ہمارے دیگرادارےبھی دہائی دینےلگیں گے پاکستانی ریلوے کو انڈین ریلوے نےبربادکردیا۔واپڈا،پی آئی اے، اسٹیل مل حتی کہ ہماراانتظامی ڈھانچہ بھی بھارت کی وجہ سے افراتفری کاشکارہے۔ یہ اک نہایت بھونڈا جواز اور مضحکہ خیزبات ہے۔ لہذاہمارے فلمسازوں کوہی نہیں دیگرمعاشرتی اداکاروں اور گلوکاروں کوبھی اپنے فرسودہ رویوں کوتبدیل کرناہوگا۔ بقول"لاؤزوتاؤتہ کنگ، "جوشخص اپنے نظریات پرہی اڑارہتاہے اس سے اتفاق کرنے والے ڈھونڈنے سےہی ملتےہیں۔"اورہمیں انتھونی رابنز کی یہ بات بھی یادرکھنی چاہیےکہ "لوگ سست نہیں ہوتےبلکہ ان کےمقاصدبیکارہوتےہیں جوان میں جوش اورولولہ جنم نہیں لینے دیتے۔"آج ہم بھی صحت مندمقابلے کےرحجان کی بجائے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے آسیب میں مبتلاہیں۔ اسی "ڈنگ ٹپاؤ" سوچ نے آج ہمارے ہرادارےکوتباہ کردیاہے۔ ہرطرف ستیاناس سے سوا ستیاناس ہے۔
شکیسپئیرکہتاہےکہ"ہمارے جسم ہمارے چمن ہیں اور ہماری خواہشات ان کی مالی ہیں۔ "لہذا اگرہم نے چمن کو پھلتاپھولتااورخوش رنگ دیھکناچاہتےہیں توہمیں جدیداسلوب اختیارکرناہوں گے۔ہرشعبےمیں کمپیوٹراوردیجٹیل ٹیکنالوجی میں مہارت اورجدت پیداکرناہوگی ورنہ ہمارے رہے سہے"ستو"بھی بک جائیں گے۔ہمارادوسرابڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم خودمختاری اورخودانحصاری کاسبق بھول چکے ہیں۔ ہماری فلم انڈسٹری سےلے کر ہرسرکاری ونجی شعبہ حکومتی مالیاتی سرپرستی کی دہائی دے رہاہے۔ نہ نومن تیل ہوگانہ رادھاناچے گی اور ہمارے تمام ادارے تباہی اور بربادی کی داستان بن جائیں گے۔ بلکہ بن چکے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ آج جو کچھـ بھی ہمارے پاس ہے،جیسے اورجتنے بھی وسائل ہمیں دستیاب ہیں اپنی پوری محنت لگن اور دیانتداری کےساتھـ اپنی بھرپور تخلقیقی صلاحیتوں کامظاہرہ کریں۔ مگر ہم نے تواپنی بصری اورسمعی قوتوں کوزنگ آلود کرڈالاہے اوریہی زنگ اورزہرہمارے پورے سماج میں سرایت کرچکاہے اور ہم دیواروں سے اپناسرپھوڑرہےہیں کہ شاید
"دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتاہے۔"
ایمان کی حدتک مجھے یقین ہےکہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسکے باوجودآج ہم ویسی فلمیں کیوں نہیں بناسکتےجیسی ماضی میں بناتےتھے؟وعدہ، نیند، کوئل، نیلا پربت، شہید یازرقا جیسی عمدہ فلم بنانے کے سرمایہ سے زیادہ عقل اور تخلیقی صلاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگرہماری ترجیحات ہی مختلف ہیں۔بلاشبہ ضیاء الحق کےگیارہ سالہ مارشل لاء نے بھی فلم انڈسٹری کوبربادکرکےرکھـ دیا۔ضیاء کادورحکومت فلم انڈسٹری ہی نہیں، ہمارے ہرادارے کی بربادی کاعہد تھا۔ تفصیل کبھی پھرسہی کہ آج ہمارے رویے انتہائی نامناسب اورترجیحات منفی ہوچکی ہیں۔ لاہور کامشہور مرغ چنے والااپنی کوٹھی پرتوکروڑوں روپیہ خرچ کردیتاہے مگراپنے فوڈ سینٹرکونہیں سنوارتا،وہاں کے غلیظ ترین میز کرسیاں تبدیل نہیں کرتاجہاں سےپیسہ کماتاہے وہاں پر خرچ نہیں کرتا۔ یہی حال ہمارے ٹرانسپورٹرزکاہے، پیسہ ٹرانسپورٹ سےکماکرکسی دوسری شعبہ میں لگادیں گےمگرٹرانسپورٹ کی حالت بہترنہیں کریں گے۔یہی کچھـ فلم انڈسٹری کےساتھـ بھی ہوا۔
بات پھر وہی ہے جب تک ہمارے اندر کی تصویریں تبدیل نہیں ہوں گی ہمارے رویےبہترنہیں ہوں گے،مثبت اورتعمیری تبدیلی نہیں آئے گی، ورنہ ہمارا ٹیلنٹ تویہ ہے کہ شفقت،عدنان سمیع، علی ظفر یاراحت فتح علی خان جیسے نوجوان آج بھی بھارت میں اپنے فن کاجادو جگا کروہاں کے گلوکاروں کوحیران کردیتےہیں۔ محض تنقید یادوسروں پرالزام تراشی نہیں ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کرخوداپنے رویوں اورکارکردگی کابھی جائزہ لیناچاہیے کہ ہماری بربادی کاذمے دار کوئی اور ہے یاہم خوداپنے پاؤں پرکلہاڑی چلاتےہیں۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.