Javed Iqbal


”قبر کی آغوش“……چوراہا …حسن نثار


چالیس سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ بیت گیا ہماری دوستی کو اوراتنی مدت میں تو بچہ پیدا ہو کر ادھیڑ عمر ہو جاتا ہے لیکن میری اور راجہ انور کی دوستی آج بھی جوان ہے۔ راجہ انور کے بارے بات کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنے بارے میں۔ تعریف اس کی کروں گا اورطعنہ خودستائی کا سنوں گا۔ راجہ کو دو لفظوں میں بیان کرنا ہو تو آسان ترین لفظوں میں اسے ”رومانٹک جنگجو“ کہا جاسکتا ہے جس کی ساری زندگی مہم جوئی سے عبارت ہے۔ راجہ ان میں سے ہرگز نہیں جن کی زندگی کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ…
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
راجہ نے دلیری اور کبھی کبھی تو دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی زندگی کو خود بسر کیا جو اس بوسیدہ سماج میں کسی معجزہ سے کم نہیں۔ کامیابی و ناکامی، گمنامی اور ناموری، فتح و شکست، محبت و نفرت، آزادی اور قید، زندگی اور موت سے ماورا ا س نے زندگی اپنی شرائط پر بسر کی اور کچھ ایسے انداز میں کہ… ”گر جیت گئے تو جیت گئے ہارے بھی تو بازی مات نہیں“
راجہ کثیرالجہات آدمی ہے لیکن آج اس کی صرف ایک جہت پر بات ہوگی یعنی یہ مہم جو مصنف کیسا ہے؟
اور وہ بھی اس کے تازہ ترین شہکار کے حوالہ سے جس کا عنوان ہے ”قبر کی آغوش“ جو سچ مچ موت کے منہ سے واپسی کی رونگٹے کھڑے کردینے والی روداد ہے۔ پچھلے دنوں تین کتابیں زیر مطالعہ رہیں۔ پہلی George Freidman کی “The next 100 years” … دوسری “Unweaving the rainbow” اور تیسری تھی ”قبر کی آغوش“ تینوں کتابیں موضوع کے اعتبار سے بالکل مختلف بلکہ متضاد لیکن ان میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ آپ انہیں ختم کئے بغیر چھوڑ نہیں سکتے۔ پاکستان اور عالم اسلام کو ایک مخصوص حوالے سے سمجھنا ہو تو یہ ”قبر کی آغوش“ اک نئی ذہنی زندگی عطا کرتی اور اک نیا وژن عطا کرتی ہے۔
اب میں اس کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ کہیں کہیں میرا مختصر سا تبصرہ بھی شامل ہوگا۔ راجہ پیش لفظ میں ہمارا ایک دیرینہ المیہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:…
”ان دونوں دھڑوں میں نہ تو کوئی بنیادی فکری بعد تھا اور نہ کوئی نظریاتی اختلاف پایا جاتا۔ حالات کا تقاضا تھاکہ دونوں گروہ اپنے شخصی، گروہی اورفروعی اختلافات ختم کرتے اور اپنی پارٹی کے جھنڈے تلے اپنے مخالفین کے مقابلے میں ڈٹ جاتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس اپنے ہم سفر اور ہم رزم ساتھیوں کوتھوک کے حساب سے اندر کررکھا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کامریڈوں کی ”محبت“ کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے مخالف دھڑے کا کوئی کامریڈ جیل پہنچنے سے قبل باہمی کشمکش کے دوران مارا جاتا یا ان کے ہاتھ لگنے سے پہلے فرار ہو جاتا تو یار لوگ اس کی کمی پورا کرنے کی خاطر اس کے اہل و عیال کو ”پل چرخی“ میں گھسیٹ لاتے۔“
صفحہ 12: ”یہاں یہ بات یاد رہے کہ لندن میں محترمہ سے ناہید خان کا تعارف چاچا ہمدانی نے کرایا تھا۔ تب تک ناہید خان چاچا کی ”مریدنی“ تھی لیکن محترمہ کابیگ اٹھانے کے بعد وہ ”پیرنی“ ہوگئی اورچاچا محترمہ کے حلقہ سے بھی خارج ٹھہرا۔“ (یہی ہمارا کل سیاسی کلچر ہے جس پرکروڑ بار لعنت)
صفحہ 16: ”مردہ حکمرانوں کو براکہنے کی بیماری تو پیچھے سے ہی چلی آرہی تھی “ (یہاں تو مردہ حکمرانوں کی ہڈیاں تک قبروں سے نکالنے کی روایت ہے)
صفحہ 29: ”سوچا اگر بیچاری چوہیا روٹی کی خوشبو سونگھ کر حسب ِ عادت باہر آگئی تو کسی مجاہد کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جن لوگوں کا ایمان انسانوں کے قتل سے تازہ ہو… کیا وہ ایک چوہیا کو مار کر مزید ثواب حاصل نہیں کریں گے؟“صفحہ 31: ”عبرت سرائے دہر کایہ نمونہ ملاحظہ ہو کہ اسد اللہ امین ان اطاقتچوں کاپہلا قیدی بنا جو اس نے مخالفین کو سیدھا کرنے کیلئے تعمیر کروائے تھے مگر اس کے انجام سے کسی نے عبرت نہ پکڑی کہ حکمرانوں کی نفسیاتی لغت میں نہ تو عبرت جیسا لفظ موجود ہوتاہے نہ سبق جیسا کوئی تصور“(بہتر ہوتا اگر راجہ انور حکمرانوں کی جگہ ”ہمارے حکمرانوں“ لکھتا کہ مہذب دنیا اس لعنت سے بہت آگے نکل چکی ہے)صفحہ 40: ”یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں راقم نے بڑے بڑے جفادری کمیونسٹوں کو تسبیح کی ریاضت میں مشغول پایا۔ یہ تو بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ پڑھتے پڑھاتے کچھ نہیں بلکہ ایرانیوں، کردوں، ترکوں اورعربوں کی مانند صرف اعصاب کی بے چینی دور کرنے کے لئے دانے پر دانہ گراتے رہتے ہیں۔“صفحہ 55: لوگری نے ماضی کو کریدتے ہوئے کہا ”وزیرخزانہ کا حلف اٹھانے کے بعد مجھے ظاہر شاہ اور اس کے خاندان کی لوٹ کھسوٹ کا علم ہواچنانچہ میں نے افغانستان کو اس خاندان کے پنجہ ٴ ستم سے رہا کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ اگر میرا پلان افشا نہ ہو جاتا تو آج افغانستان کہیں سے کہیں پہنچ چکاہوتا“ (تقریباً پور ے عالم اسلام کا حکمران طبقہ ایسا ہی ہے) صفحہ 68: ”ذرا المیہ دیکھئے کہ میں بھٹو کی زندگی بچانے کے لئے اپنا سر ہتھیلی پر رکھے گلی گلی اور کوچہ کوچہ دھکے کھاتا پھرا لیکن مجھے اپنی سیاسی وفاداریوں کے صلے کی پہلی قسط اپنی ماں کے قتل کی شکل میں وصول ہوئی۔ مرتضیٰ بھٹو نے دوسری قسط کی ادائیگی کے لئے میری قبر کھدوا رکھی تھی۔ واقعی سیاسی دوستیاں بھی بے معانی ہوتی ہیں اور بڑے خاندانوں سے وفاداریاں بھی (ویسے میں حیران ہوں کہ شعور کی اس سطح تک پہنچنے کے بعد بھی راجہ کی Death wish اسے چین کیوں نہیں لینے دے رہی) صفحہ 82: ”وہ افغان مجاہدین کے بھی جانی دشمن تھے اور ان کیلئے پہاڑی بکرے کی اصطلاح استعمال کیا کرتے۔ ایک رات وہ خواب سے بدک کر جاگے۔ میں نے پوچھا ”خیر تو ہے؟“ کہنے لگے… کچھ نہ پوچھو بہت ہی ڈراؤناخواب دیکھا ہے۔ سوویت فوج یہاں سے جاچکی ہے۔ پہاڑی بکروں کا ایک ریوڑ سامنے والے ٹیلوں کی جانب سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ہر چیز تباہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہر طرف آگ اور دھواں ہے۔ ہر جانب لوگوں کی بے گور و کفن نعشیں بکھری پڑی ہیں۔ پہاڑی بکرے ہمیں بھی قتل کرنا چاہتے ہیں۔ میں انہیں روکنے کیلئے چلاتا ہوں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ (ان چند سطرں کو روح کی آنکھ سے پڑھیں) صفحہ 129: ”ترکمان کچھ اس بے رحمی سے اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگوں پرڈنڈے برساتے اور فوجی بوٹوں کی ٹھوکروں سے اس کی ہڈیاں تڑخاتے کہ اس بدنصیب کی آہ و فریاد سے کلیجہ منہ کو آتا۔ ترکمان اپنے اس وحشی پن سے لذت بھی اٹھاتے۔ اس جدید دور میں ان کی بربریت کا یہ عالم دیکھ کر میرے دل سے خیال گزرتا کہ آج سے پانچ سات سو برس پہلے ان کے ہاتھ سے کس کی گردن اور عزت محفوظ ہوگی، انہوں نے برصغیر میں کہیں کھوپڑیوں کے مینار چنے ہوں گے، کہیں عزتوں کے نیلام گھر سجائے ہوں گے۔“
قارئین! اقتباسات کی برسات ہے جو 182ویں صفحے تک چلتی ہے لیکن بس کہ اس سے آگے خود زحمت فرمایئے۔ آخر پر صرف دوباتیں عرض کرکے اجازت چاہوں گا کہ جیسے راجہ کی زندگی کاڈھنگ مختلف ہے اسی طرح اس کا ڈکشن بھی مختلف ہے۔ کیریکٹرائزیشن ایسی غضب کی جو ہمارے بڑے سے بڑے ڈرامہ رائٹر کو بھی نصیب نہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب کوئی بھی فن اپنے عروج پر ہو تو اس میں دو باتیں غالب ہو جاتی ہیں۔ اول سادگی، دوم برجستگی… راجہ کی تحریر میں یہ دونوں آپ کو عروج پر دکھائیں دیں گے… کاش راجہ خود کو پوری طرح لکھنے لکھانے کے لئے وقف کرسکتا کہ: تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے (”قبر کی آغوش“ کی تقریب رونمائی۔ نیوکیمپس کے رازی ہال میں پڑھا گیا
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.