Javed Iqbal
میں تقریباً ہر روز کچھ دیر کے لئے”بی ٹی وی“ یعنی ”بنگلہ دیش ٹیلی ویژن“ لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ پچھلے دنوں شریک حیات نے پوچھا”آپ کو بنگلہ بھاشا آتی ہے؟“ میں نے کہا…”بالکل نہیں“ تو حیران ہو کر کہنے لگیں”اگر سمجھ ہی کچھ نہیں آتا تو پھر کیا دیکھتے ہیں؟“ میں نے ٹالنے کی کوشش کی لیکن بالآخر بھید کھولنا پڑا کہ میں بنگلہ دیش کے ٹاک شوز ٹائپ پروگرام اس لئے دیکھتا ہوں کہ شاید کبھی کوئی پرانا کلاس فیلو دوست نظر آجائے کیونکہ میرے بہت سے کلاس فیلوز بنگالی تھے مثلا” اے بی ایم فاروق، غیر بنگالی قد کاٹھ والا اونچا لمبا گورا چٹا حسین، بابل، دیوان، عبدالعلی جسے ہم ”گیری کوپر“ کہتے تھے۔ اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ میں"BTV"ہفتہ میں تین چار دن ضرور دیکھتا ہوں لیکن کل جو دیکھا اس نے دل دکھ سے بھر دیا۔ ان کا بھی وتیرہ وہی مریضانہ ہے جس نے ہمیں نفسیاتی حوالوں سے خاصا برباد کیا۔ اک گیت بلکہ یوں کہئے کہ ملی نغمہ، ترانہ ٹائپ کوئی شے تھی جس میں وہ اپنے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کی تقریروں کے ٹوٹے دکھانے کے ساتھ اپنی ”جنگ آزادی“ کے مناظر بھی دکھارہے تھے اور افواج پاکستان کی جھلکیاں بھی… بھول گئے کہ رشتہ رنگ، نسل، زبان، علاقے کا نہیں”کلمہ“ کا تھا لیکن اس طرح کے کھیل میں شاید یہی کچھ ہوتا ہے ورنہ ہماری تاریخ خود اپنے ہی خون میں شرابور نہ ہوتی کہ یہ سلسلہ تو بنوامیہ سے بھی پہلے شروع ہوگیا تھا۔ اصل بات یہ کہ قوموں کو نفرت، دشمنی، انتقام پر پالنے والے اپنے عوام کے دوست نہیں بدترین دشمن ہوتے ہیں کہ یہ سب”تخریب“ کے اجزائے ترکیبی ہیں۔”تعمیر“ کے اجزائے ترکیبی اس سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ ذرا تصور تو کیجئے کہ کسی گھر کے بزرگ اپنے بچوں کی پرورش ہی دشمنی اور انتقام کی ”خوراک“ پر کریں تو ان کا ا نجام کم از کم میرے لئے تو نوشتہ دیوار ہوگا۔ یہ کسی ہٹلر کی احمقانہ ”حکمت عملی“ تو ہوسکتی ہے جو قوم کو مکمل تباہی اور شکست کی طرف لے جائے … حکمت کا اس سے کوئی تعلق ممکن نہیں۔ ایسی خودکشیانہ اپروچ محدود و مخصوص و مردود حکمران طبقات کے لئے تو لاٹری ثابت ہوسکتی ہے قوم کے لئے بوسہ مرگ کے سوا کچھ نہیں۔ کیسا الہامی شعر ہے#
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلہ مذہب کبھی بنام وطن
اور اس لوٹ مار کے لئے ضروری یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھا جائے اور جنہیں تعلیم دی بھی جائے وہ ایسی ہو کہ جہالت بھی اسے دیکھ کرمنہ چھپاتی پھرے کہ جنونی، انتہا پسند، خود پسند"We are the best"ٹائپ مائنڈ سیٹ پیدا کرتا پاگل پن اور تعلیم کے نام پرغلیظ ترین جہالت پھیلانے کے مترادف ہے۔
افراد ہی نہیں اقوام کے لئے خود کشی کا اک اور موثر ترین نسخہ یہ بھی ہے کہ انہیں ایک سے زیادہ آپشنز اور چوائسز دے کر ایک سے زیادہ کشتیوں کا سوار کردیا جائے مثلاً یہ بازار و قسم کا تھیئس کہ امریکہ کی گود سے نکل کر چین کی بغل میں گھس کر اس کے ”بغل بچے“ بن جاؤ۔ لعنت ہے ایسی فسادی فطانت پر کہ اول تو چین کبھی سپر پاور ہوگا نہیں اور بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو اس کا رویہ بھی”سپر پاورز“ جیسا ہی ہوگا اس لئے پاکستان کو چمچہ کڑچھا ریاست بنانے سے بہتر ہے اسے اس کے پیروں پر کھڑا کرنے کی بات کرو کیونکہ”چوھردی“ تبدیل کرنے سے کبھی کسی”کمی کمین“ کا سٹیٹس تبدیل نہیں ہوا۔
باعزت زندگی کی منزل کی طرف جانے والا رستہ اگر بھوک کی شاہراہ سے گزرتا ہے تو اس ملک کے”بے غیرت باعزت“ ہوش کریں اور دکھاوے کے لئے ہی سہی اپنا اپنا معیار زندگی بھی فرعونوں اور زاروں سے تھوڑا سا کم کرکے احمق عوام کو تھوڑا سا اعتماد میں لیں اور تھوڑا سا اعتمادانہیں بھی دیں۔ قومی سطح پر بھرپور ترین ڈیبیٹ کا ڈول ڈالا جائے کہ پاکستان نے اگر زندہ رہنا ہے تو کس صورت ، کس حالت اورکس حیثیت میں؟اگر"Also ran"طفیلیئے ملک کے طور پر ہی رینگنا ہے تو”کشکول توڑ“ ٹائپ مظہر شاہی بڑھکیں بند کرکے اپنی اوقات میں رہو لیکن… لیکن اگر واقعی زبانی جمع خرچ کے علاوہ بھی سچ مچ ہم اک زندہ قوم ہیں تو فیصلہ کرلو زندگی کیا ہے؟ میرا ہی اک پرانا شعر ہے#
عمر اس سوچ میں ساری جائے
زندگی کیسے گزاری جائے
لیکن یہ تو اک شاعر کا کنفیوژن ہے۔ قوموں کو تو ٹھیک ٹھیک خبر ہونی چاہئے کہ اگر باعزت زندہ رہنا ہے تو تو کیا کرنا ہوگا بلکہ کیا کیا کچھ کرنا ہوگا؟
ڈیفنس کے لئے تو ایٹم بم ڈارلنگ ہی کافی ہے، کھل کر دنیا کو بتادیا جائے کہ ہم کوئی پنگا لیں گے نہیں اور اگر کسی دوسرے نے مہم جوئی کی کوشش کی تو ہم”الف“ سے ایٹم بم شروع کرکے مکمل تباہی کی”ی“ پر کہانی ختم کردینگے یعنی”نان چھیڑ ملنگاں نوں نیئں تے پین گے ٹنگاں نوں“
پھر بھاری ترین رقومات مختص کرو عوام کی تعلیم، صحت، انصاف اور انفراسٹرکچر پر… اور تعلیم ایسی نہیں جو جہالت سے بھی بدتر ہو…عوام کی جینوئین تعلیم و تربیت کرکے ان بیکاروں،ذہنی بیماروں، توہم پرستوں، شخصیت پرستوں نعرہ زن جذباتیوں اور معجزوں کے منتظروں کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عظیم جنات میں تبدیل کردو… ان کی کچلی ہوئی گمشدہ انائیں کاسمٹیک سرجری کے بعد انہیں واپس کردو… 18کروڑ عوام کو ”سائیں لوکوں“ سے پرامن ایٹم بموں میں تبدیل کردو…انہیں”ایٹمی ری ایکٹرز“ میں بدل دو تو پھر دیکھوں20سال کے اندر اندر بازی پلٹتی ہے یا نہیں؟
اپنے عوام کو بتاؤ کہ بحرانوں میں مومن کا رویہ اور برتاؤ کیا ہوتا ہے؟ جاپان پر ٹوٹی قیامت کی فلمیں دکھا کر انہیں بتاؤ کہ بنیادی طور پر یہ تمہارا برتاؤ اور رویہ ہے جسے جاپانی برت رہے ہیں لیکن یہاں تو چند ہزار خود غرض بے حیا بدمعاشوں نے اپنے آپ میں گم ہو کر ہماری نسلوں کا مستقبل گم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
عمر اس سوچ میں ساری جائے
زندگی کیسے گزاری جائے
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.