Javed Iqbal
Let's Study Urdu: An Introduction to the Script (Yale Language Series)
بیٹا صدرمملکت۔
بہو دو باروزیراعظم رہی۔
سمدھی بھی سابق صدر، وزیراعظم اور ملک کا مقبول ترین لیڈر۔
سمدھی کا باپ سر شاہنواز بھٹو بھی وزیرعظم۔
صاحبزادیاں ملک کی طاقتور ترین خواتین۔
پوتا بلاول بھٹو زرداری بھی… مستقبل کا وزیراعظم۔
لیکن ہوا کیا؟ ایسی دھانسو اورتابڑتوڑ قسم کی رشتہ داریوں کے باوجود حاکم علی زرداری فوت ہوگئے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ میں صدر مملکت سے تہہ دل کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ بڑے سے بڑارشتہ، منصب، مرتبہ ، اونچی سے اونچی سیسہ پلائی دیوار، ان گنت مسلح محافظ اور پہرے دار، اندرون و بیرون ملک محلات، جاگیریں اورلامحدود دولت بھی موت کا راستہ نہیں روک سکتی۔ تمام تر وسائل کے باوجود نہ شریک
حیات بچائی جاسکتی ہے نہ باپ۔ظہیر کاشمیری مرحوم پریس کلب میں تاش سے جی بہلا رہے تھے جب کسی نے کسی کا نام لے کر اونچی آواز میں کہا … ”فلاں مر گیا ہے“ سنہری رنگت اور روپہلی شاعری کرنے والے دبنگ اور بلند آہنگ بابا ظہیر کاشمیری نے سر اٹھائے بغیر اپنے مخصوص لہجے میں کہا…
”او لڑکو! مل جل کر اس موت کو مارو کیونکہ جب تک یہ زندہ ہے لوگوں کو مارتی رہے گی…“ سو اے شہریار ! صاحب ِ اقتدار! کیونکہ موت ماری نہیں جاسکتی اسی لئے مرنا طے ہے اور میں نے آج تک ”ڈیزائنرز کفن“ نہیں دیکھا اور نہ کبھی سنا کہ کوئی خلا میں دفن ہوا ہو تو پھر یہ بے معنی دوٹکے کی زندگی … زندگیوں کے لئے وقف کیوں نہ کر دی جائے کہ موت سے بچنے کایہی ایک طریقہ ہے۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گورپیا کوئی ہورانسان کی پانچوں حسیں آپس میں دوست ہوتی ہیں تو چھٹی حس خود بخود پیدا ہو جاتی ہے میری چھٹی حس کہتی ہے کہ سندھ کے اس سپوت میں پوٹینشل موجود ہے… ہرغیرمعمولی آدمی خواہ منفی ہو یامثبت اس میں اس طرح کا پوٹینشل موجود ہوتاہے کہ کسی بھی وقت اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا پرانا طریق ترک کرکے بالکل ہی کسی اور ڈائریکشن میں جانکلے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے مثلاً مسلمانوں کا دیومالائی شہرت یافتہ امیر البحر خیر الدین باربروسہ مسلمانوں کی ڈھال بننے سے پہلے بحری قذاق تھا جس سے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے … اس کے جانشین کا پس منظر بھی کچھ ایساہی تھا۔پھر شیر میسور ٹیپو سلطان کے بازوئے شمشیر زن اس ہندو لٹیرے کوکون بھول سکتا ہے جس نے سلطان کی دعوت پر اس کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی اور شیر میسور نے اسے ”بخت جہان خان“ کا نام دیا۔ ٹیپو نے کبھی اسے اپنا دھرم چھوڑنے کانہ کہا۔ یہ علیحدہ بات کہ سلطان کی محبت و شجاعت سے متاثر ہو کر اس نے رضا کارانہ طور پر اسلام قبول کرلیا۔ اس شخص نے سلطان کی شہادت کے بعدبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنے جتھے کے ساتھ انگریزوں کے خلاف چھاپہ مار جنگ لڑتا رہا۔حضرت بابا میاں چنوں کے بارے بھی بچپن میں سنا کہ اپنے وقت کے نامی گرامی ڈاکو تھے لیکن پھر زندگی میں اک ایسا موڑ آیا کہ سانولی کی مہاڑیں مڑ گئیں، دل پھر گیا، کایا پلٹ گئی اور لوٹ مار کا رسیا ایسا عبادت گزار ہوا کہ خود عبادت اس پر رشک کرنے لگی۔اشوکا دی گریٹ… اشوک اعظم کی زندگی بھی عجب گزری۔ اس نے خون کے دریا بہائے، لاکھوں انسان تہہ تیغ کئے، شہروں کے شہر برباد کئے لیکن زندگی کا آخری معرکہ جیتنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر پر وہ اپنا آپ ہار گیا۔ سنگ و آہن کا بنا اشوک چشم زدن میں ”جنڈ اشوک“ سے موم اور مٹی کا پتلا بن کر انسانوں سے محبت کرنے لگا، خلق خدا کی خدمت کرنے لگا اور تاریخ نے پوری تعظیم کے ساتھ اسے اپنے سینے میں محفوظ کرلیا۔کیا خبر کامیاب مہم جو اور سرپھرے پولو پلیئر آصف زرداری کابھی میٹرگھوم جائے اوروہ ملک پر حکومت کے جنون سے گزر کردلوں پر راج کرنے کے خبط میں مبتلا ہوجائے… صحیح غلط، اچھے برے، منفی مثبت، تعمیری تخریبی کی بات نہیں لیکن یہ ماننا ہوگا کہ آدمی غیرمعمولی ہے جس کا سارا کیریئر اس کے غیرمعمولی پن کی گواہی دیتا ہے… اگر صلاحیتوں کی سمت تبدیل ہو جائے تو کم از کم مجھے قطعاً کوئی حیرت نہ ہوگی ورنہ جو ہے سو تو ہے ہی۔
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
Let's Study Urdu: An Introduction to the Script (Yale Language Series) 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.