Javed Iqbal

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچو ں میں نہیں ڈھل سکتی
جس حکایت پر یہ کالم ختم کروں گا، اگر آپ کی ”حس لطافت“ پر کچھ گراں گزرے تو پیشگی معذرت خواہ ہوں لیکن کیا کروں… اس ملک کے لالچی اور ہوس اقتدار کے مارے ہوئے سیاستدانوں کو جھنجھوڑتے رہنا ہم جیسوں کے ناخوشگوار فرائض میں شامل ہے کہ بے حسو! کچھ تو ہوش اور خیال کرو۔
کیوں اس درخت کی جڑوں میں تیزاب ڈال رہے ہو جس کی پھل دار ڈالیوں پر تم بندروں کی طرح آنیاں جانیاں دکھاتے رہتے ہو؟’ کیوں اس پاکیزہ کنویں میں زہریلی گندگی گھول رہے ہو جو تمہاری پیاس سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بجھاتا ہے؟ کیوں میٹھے گنوں کا وہ کھیت اجاڑ رہے ہو جس کا زیادہ تر ”رسیلے پونے“ تم ہی چوستے ہو؟ کیوں اس میخانہ کے دشمن بنے ہو جس کی بہترین مے صرف تمہارے لئے مخصوص ہے؟ کیوں اس دستر خوان کو روند رہے ہو جس سے عوام کو تو دو وقت روٹی بھی نہیں ملتی جبکہ تم کالے تیتر ، ہرن، تلور، پرون اور کیوئیار سے لطف اندوز ہوتے ہو؟ کیوں اس دھرتی کو برباد کر رہے ہو جس کے سب سے بڑے اور خوفناک قبضہ گروپ تم خود ہو کہ وہ سڑکیں بھی روک لیتے ہو جن کی رجسٹریاں تمہیں ورثے میں نہیں ملیں؟ کیوں اس ملک کو نوچ رہے ہو جس نے تمہیں رہزنوں سے سردار اور جاگیردار ، دست کاروں سے صنعت کار بنایا اور پھر تم سیاست کے ذریعہ ڈالرز اور پاؤنڈز میں کھرب پتی بلکہ پدم پتی ہوگئے اور اپنی بیشتر دولت اس بدنصیب ملک سے باہر Invest کردی جس کے مستقبل پر تمہیں سرے سے یقین ہی نہیں… واقعی ”نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا“… واہ وارداتیو واہ! اپنی دولت ملک سے باہر سمگل کرکے بیرون ملک انویسٹرز کو اس ملک میں سرمایہ کاری کی دعوتیں دیتے ہو… لوگ سب سمجھتے ہیں لیکن کیا کریں کہ بڑے بدمعاشوں نے ”یوسی“ بلکہ گلی کی سطح تک مختلف سائز کے بدمعاشوں اور طفیلیوں کا اک پورا ”جمہوری“ سیاسی انتخابی نظام، وضع کر رکھا ہے اور یہ سب بھی اپنے آقاؤں کی طرح ہی اندھے، خودغرض، بے غیرت اور بے حیا ہیں اور دراصل یہی مافیاز ”ووٹ بنک“ کہلاتے ہیں… اوپر سے نیچے تک بڑے چھوٹے بینی فشریز کے یہ جرائم پیشہ غلیظ گروہ… جس کا جتنا بڑا منہ، جبڑایا چونچ، ”حصہ بقدر جثہ و معدہ“ والے اصول کے تحت اسی سائز کی ہڈی، بوٹی، ران یا سالم بکرا اس کے دانتوں میں گھسا دیا جاتا ہے اور جرائم پیشاؤں کی یہی زنجیرجمہوریت کہلاتی ہے جس کے بارے پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے۔جینوئن ورکر تو قصہ پارینہ ہوئے… یا آٹے میں نمک برابر۔
میرے ہم وطن آج کل اسی جمہوریت کے مزے لے رہے ہیں۔ نہ روٹی ،نہ کپڑا، نہ مکان نہ امن امان… نہ بجلی، نہ گیس ، نہ پانی اور ہرہفتے سات بجٹ حتیٰ کہ اتوار کو بھی چھٹی نہیں لیکن نت نئے ڈرامے روز دیکھ لو۔ ہر چھ آٹھ مہینے بعد کوئی نیا جگاڑ جس کی آڑ میں اپنے طفیلیوں کونوازا جاتا ہے، سپورٹرز اورووٹرز کو رشوت دی جاتی ہے اور نام بدنام کیاجاتا ہے عوام کا، لیکن یہ بھی سچے ہیں کہ جنہیں موت بھولی ہوئی ہو وہ ایسی ہی بدصورت زندگیاں گزارتے ہیں… کاش یہ جاتنے کہ اقتدار کیا…خود زندگی کی حیثیت اس حکایت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
اک حکمران کو ریاح کے خروج نہ ہونے پر سخت اذیت کا سامنا تھا۔پیٹ پھٹنے والا ہوگیا۔ شاہی طبیبوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا لیکن صاحب کا مسئلہ حل نہ ہوا تو منادی کرادی گئی کہ جو کوئی اس منحوس مرض کا علاج کرے گا، بھاری انعام سے نوازا جائے گا۔ کوئی آگے نہ آیا اور مریض موت کے منہ تک جا پہنچا تو انعام کی مقدار بڑھا کر نصف ریاست مقرر کردی گئی کہ واقعی درد سر کا علاج تاج سے نہیں ہوتا، پھراک درویش محل کے دروازہ پر آیا اور پکارا…
”علاج کرالو“۔
درباری بھاگے آئے اور محل کے اندر چلنے کی درخواست کی تو درویش نے مسکراتے ہوئے کہا…”حکمران سے کہو پوری ریاست دیتا ہے تو علاج شروع کرتا ہوں“ بادشاہ کو علم ہوا تو بولا…”بیمار بادشاہ سے صحت مند کتا بہتر ہے، میں پوری ریاست پیش کرتا ہوں، اس اذیت سے میری جان چھڑاؤ“۔ فقیر نے دعا کی اور بظاہر کوئی سفوف نما دوا بھی دیدی اور والئی ریاست نے شفا پائی تو علامتی طور پر ریاست اور خزانے کی طلائی کنجیاں درویش کی خدمت میں پیش کیں۔ درویش نے ہنستے ہوئے کہا…
”یہ تاج و تخت تجھی کو مبارک ہو، میں ایسی بے معنی بے حقیقت اور ناکارہ چیز کو لے کر کیا کروں گا جس کی کل قیمت صرف ہوائے شکم کا خروج ہے اور یوں بھی آج تک میں اللہ کے حضور صرف اپنی ذات کے لئے جواب دہ ہوں…حکومت پالینے کے بعد ساری رعایا کی جواب دہی کا بوجھ میرے کندھوں پر آپڑے گا جس کا میں متحمل نہیں ہوسکتا“۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.