Javed Iqbal
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اقتصادی لحاظ سے بدحال ایٹمی طاقت وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے اک ایسے معذور شخص کی مانند ہوتی ہے جس کی چھاتی بہت چوڑی، ڈنڈ بہت مضبوط، کلائیاں آہنی اور انگلیاں فولادی ہوں لیکن اس کا نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ہو۔ ایسا شخص شجاعت اور سرفروشی میں بھی یکتا ہو تو زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے ؟ کوئی شرارتی بچہ پیچھے سے آکر چپکے سے اسے تھپڑ، طمانچہ، جھانپڑ، ٹانٹ یا ریبٹا رسید کرکے بھاگ جائے تو مفلوج دھڑ کے ساتھ سات فٹ کا مضبوط ترین اپر ہاف والا یہ گھبرو جوان اس کا کیا بگاڑلے گا؟
اک اورمنظر تراشتے ہیں
فرض کیجئے میرا جذبہ ایمانی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا اپنی پوری جوانی پر پوری طغیانی میں ہے جبکہ میرا دشمن بیحد ہائی پرفارمینس سپورٹس کار پر سوار ہے۔ ہم دونوں ”ون، ٹو، تھری … گو “ کی آواز سن کر ”منزل “ کی طرف دوڑ تے ہیں تو کس کی جیت یقینی ہے ؟
ابراہم لودھی کوئی للوؤں کا بال بچہ نہیں تھا۔ شیر جیسا دلیر یہ پٹھان ذاتی شجاعت میں ظہیر الدین بابر سے بڑھ کر نہیں تو کم بھی ہرگز نہ تھا ، اس کی سپاہ کو عددی برتری بھی حاصل تھی لیکن توپ خانہ کی ”ٹیکنالوجی “ کے سامنے سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ یہی کچھ رانا سانگا کے ساتھ ہوا کہ اپنی زندگی میں ہی دلیری کے حوالہ سے دیومالائی مقام حاصل کر لینے والے رانا سانگا کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس پر زخم کا نشان نہ ہو لیکن اس کی بھی ساری راج پوتی دھری کی دھری رہ گئی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ شجاع ترین پیادوں پر ان اوسط درجہ کے جنگجوؤں نے فتح پائی جنہوں نے پہلی بار ”گھوڑوں“ کو ”جنگی مشینوں “ کے طور پر استعمال کیا اور پھر ان پر وہ غالب آئے جنہوں نے پہلی بار لگام اور پھر کاٹھی ایجاد کی کیونکہ ”ٹیکنالوجی “ علم ہے، ایجاد ہے، اختراع ہے جو خالق و مالک و رازق کو بہت پسند ہے ۔
غزوہ خندق میں بھی …خندق کو بطور ”ٹیکنالوجی “ ہی استعمال کیا گیا کہ عرب اس سے آشنا نہ تھے جبکہ اہل فارس کیلئے یہ عام بات تھی یعنی زندگی میں …قوموں کی عملی زندگی میں فیصلہ کن کردار ٹیکنالوجی اور سٹریٹیجی کا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ صرف صرف اور صرف قدرت باکردار لوگوں کے دماغوں پر نازل کرتی ہے ۔ سٹریٹیجی کی انتہاء دیکھنی ہے تو صلح حدیبیہ کو یاد کرو جس پر صحابہ دلبرداشتہ تھے لیکن ”فتح مبین “ کہلائی۔
مجھے آج تک وہ فلم نہیں بھولتی جس میں عظیم مجاہد عمر مختار کا کردار میرے فیورٹ اداکار انتھنی کوئن نے ادا کیا اس میں عمر مختار جیسا حریت پسند اپنے غاصبوں سے مذاکرات کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت گھوڑوں پر سوار واپس جاتا ہے تو اس کے غاصب کھڑکی ٹائپ شے میں سے جھانک کر انہیں جاتا ہوا دیکھتے ہیں تو اچانک ان میں سے ایک کمانڈر اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے ،
”یہ سچے بھی ہیں اور بہادر بھی لیکن حد درجہ بیوقوف بھی کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ ٹیکنالوجی ان کے ساتھ کیا کچھ کر سکتی ہے “۔ پھر سرداروں کے سردار اس عظیم سرفروش عمر مختار کے ساتھ کیا ہوا؟ ابھی کل کی بات ہے ۔
میرا خوف یہ نہیں کہ آج عالم اسلام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ میں اس خیال سے لرزہ براندام ہوں کہ اگر تیور تبدیل نہ ہوئے تو کل کیا ہو گا؟
ماضی میں قوموں قبیلوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ چند عشروں کا فرق و فاصلہ ہوتا تھا مثلاً گھوڑے کے مقابلہ پر گھوڑا، تلوار بمقابلہ تلوار، ڈھال کے سامنے ڈھال، خود کے مقابل خود ، زرہ بکتر سے زرہ بکتر متصادم، نیزے سے نیزے کا ٹکراؤ، تیروں کے جواب میں تیر علی ہذالقیاس یعنی انیس بیس کا فرق ہوتا ۔
پھر یوں ہوا کہ قوموں کے درمیان بلکہ یوں کہیے کہ حریفوں کے درمیان فرق اور فاصلہ عشروں کی حدود سے نکل کر دہائیوں کے حصار سے نکل کر صدیوں تک پھیل گیا یعنی ایک قوم بیچاری بھنگ بھون رہی ہے تو دوسری انڈر گراؤنڈ ریلوے بچھا رہی ہے ۔
اب کہانی ہی کچھ اور ہو گئی ہے کہ قوموں کے درمیان فرق اور فاصلہ ناقابل فہم اور ناقابل عبور ہوتا جا رہا ہے یعنی دہائیوں کا فرق اور فاصلہ بتدریج صدیوں کے فرق اور فاصلوں میں تبدیل ہوا جو اب ملینیمز(ہزاریوں) کے فرق اور فاصلوں میں تبدیل ہو رہاہے ۔ طاقتور اور کمزور قوموں میں … محنتی اور کاہل قومیوں میں… زرخیز اور بنجر قوموں میں…تخلیقی اور تخریبی قوموں میں…زندہ اور مردہ قوموں میں… لائق اور نالائق قوموں میں … قدرت کے قریب اور اس سے دور تر قوموں میں … کامیاب اور ناکام قوموں میں … حقیقت پسند اور خواب دیکھنے والی قومیوں میں … پڑھی لکھی اور جاہل قوموں میں … ٹھنڈے دماغ والی اور جذباتی قوموں میں … گہرائی و گیرائی والی اور سطحی قوموں میں اب ہزار ہزار سال کا فرق اور فاصلہ ہے … اتنا ہی فاصلہ جتنا ہمارے ”واسا“ اور ان کے ”ناسا“ میں ہے…اتنا ہی فاصلہ جتنا ہمارے ”مدرستہ البنات “ اور ان کے ریڈ کلف میں ہے… اتنا ہی فاصلہ جتنا کسی مغل سرائے اور سیون سٹار ہوٹل میں ہے … اتنا ہی فاصلہ جتنا کھوتی ریڑھی اور یورو ریل میں ہے …اتنا ہی فاصلہ جتنا چرخے اور ”سلزر“ یا ” ٹو یوڈا “ میں ہے … اتنا ہی فاصلہ جتنا ”کانواں والی سرکار “ اور سر آئزک نیوٹن میں ہے … اتنا ہی فاصلہ جتنا کسی مزار اور لیبارٹری میں ہے … مٹی کے چراغ اور بلب میں ہے … اونٹ گھوڑے خچر گدھے اور ڈرون میں ہے … شاہی حکیوں کے احمقانہ نسخوں اور ویاگرا میں ہے … گھڑے اور فریج کے پانی میں ہے … پیپل کی چھاؤں اور ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈ میں ہے … سعودی گترے اور اس جنگی ہیلمٹ میں ہے جس میں کیمرہ نصب ہوتا ہے … فلش سسٹم اور ” کھیتوں“ میں ہے … کلر سے کپڑے دھونے اور واشنگ مشین + ڈیٹر جنٹ میں ہے … چار ایکڑ دور تک آواز نہ پہنچا سکنے سے ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے پیاروں سے لمبی بات کرنے تک … میں حقائق پر مبنی ہزاروں صفحے ہر روز سیاہ کر سکتا ہوں کہ ہمیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی ؟ ہمیں ہوش کیوں نہیں آ رہا یا رہی ؟ ہم حقائق پسندی، ادراک اور احساس زیاں کو ” مرعوبیت “ کے ساتھ کنفیوژ کیوں کر رہے ہیں ؟ کہاں کچھوے کہاں قلانچیں بھرتے ہرن ،
خدا کی قسم یہ سودائی ہیں یا سوداگر … ورنہ یہ بھی میری طرح چیختے چلاتے، روتے کرلاتے، گالیاں کھاتے اور بکتے لیکن زہریلا ترین سچ بولنے سے باز نہ آتے کہ اول یہ کہ دنیا بھی بہت اہم ہے ورنہ ہمارے آقا نے اسکی تبدیلی کیلئے نہ مکہ کے ظلم سہے ہوتے نہ طائف میں پتھر کھائے ہوتے نہ ہجرت کے دکھ اٹھائے ہوتے نہ احد کے زخم سہے ہوتے اور نہ غار حرا کی تنہائیاں کاٹی ہوتیں …ان سے بڑا عابد اور عبادت گزار کون ہو سکتا ہے ؟ آخرت ہی نہیں کہ یہ دنیا بھی آخرت ہی کا دیباچہ ہے اور اس میں بھی مسلمان کو باوقار ہونا چاہئے کہ … ”بیشک تم غالب آؤ گے اگر تم مومن ہو “ یعنی جو جتنا غالب ہوتا ہے وہ ”مومنیت “ کے اتنا ہی نزدیک ہوتا ہے ۔
رہ گئی ٹیکنالوجی اور اعلیٰ سٹریٹیجی تو یہ دونوں ” فراست“ کی بیٹیاں ہیں اور حکم یہ کہ … ”مومن کی فراست سے ڈرو“ لیکن یہاں تو ”پلیئنگ ٹو دی گیلری “ ٹائپ میراثی ہیں جو شاید جانتے بھی ہیں کہ کیسی تباہی و بربادی میں حصہ دار بن رہے ہیں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.