Javed Iqbal
 
پہلے کچھ آنسو ہوجائیں،صدیوں پہلے جب میں گورنمنٹ کالج لائلپور میں بطور”فرسٹ ائیر فول“ داخل ہوا تو سانولے رنگ اور پھول سے نرم لہجے والے اک سینئر نے رضاکارانہ طور پر میری رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔ خصوصاً مباحثوں کے لئے تقریروں کی تیاری۔ یہ افتخار نسیم تھا جو بعدازاں پردیس جابسا لیکن میرے لئے اس کی شفقت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے افتی بھائی کی کتاب لانچ ہوئی تو مجھے بطور مہمان خصوصی لائلپور طلب فرمایا۔ تب میں نہیں جانتا تھا کہ اس بلا کے شاعر اور بے پناہ نثر نگار سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ وہ واپس شکاگو چلے گئے میں اپنے”بیلی پور“ لوٹ آیا کہ اب اچانک خبر آئی کہ ساری زندگی سفر میں گزاردینے والا یہ خوبصورت خانہ بدوش شکاگو سے بھی بہت آگے کسی ایسے شہر کی طرف روانہ ہوگیا جہاں جانا تو طے ہے،واپس آنا ممکن نہیں، 23 جولائی2011ء کو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا۔ افتخار نسیم کا ہی اک شعر ہے
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئیے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
عدیم ہاشمی مرحوم اور افتخار نسیم عرف افتی بھائی دونوں آپس میں قریبی رشتہ دار تھے، دونوں ہی غضب کے شاعر، دونوں ہی میرے قریبی دوست اور دونوں ہی امریکہ میں آسودہ خاک ،عدیم ہاشمی کا شعر ہے…
تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا
پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آئے
سچ ہے کہ مرے ہوئے کے ساتھ کوئی نہیں مرتا لیکن قسم فرشتہ اجل کی، ہر پیارے کی موت کے ساتھ آدمی خود بھی تھوڑا سا مرجاتا ہے جیسے میں افتی بھائی کی موت کا سن کر تھوڑا سا مزید مرگیا ہوں۔افتخار نسیم کا اک اور شعر
شورکرتے ہیں پرندے پیڑ کٹتا دیکھ کر
شہر کے دست ہوس میں کوئی آری دے گیا
اور اب اس زندگی ،اس شرمندگی اور درندگی کی طرف واپس آتے ہیں۔برطانیہ کی کیمرج یونیورسٹی اور ویب سائٹ کے اک تازہ عوامی سروے کا یہ نتیجہ پڑھ کر مجھے رتی برابر حیرت نہیں ہوئی کہ پاکستانی سیاست میں مقبولیت کے حوالہ سے عمران خان پہلے اور سابق صدر پرویز مشرف دوسرے نمبر پر ہیں۔ شاید سیاسی اجارہ داروں کے دن گنے جاچکے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ان کی داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو…ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
دوسری خبر میں تو خبریت نام کی کوئی شے ہی موجود نہیں اور وہ یہ مضحکہ خیز اطلاع ہے کہ نواز شریف کے بلا مقابلہ پارٹی صدر بننے کا امکان ہے……امکان کیا مری جان! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، شخصیت پرستی کی مجہول دنیا میں تو اپنی اپنی شخصیت کی خواہش بھی فرمان کا درجہ رکھتی ہے۔ نواز شریف تو دور کی بات، وہاں تو”خاکروب“ بھی آقا کی مرضی کے بغیر یہ”منصب“ نہیں پاسکتا۔ یار لوگ پھر بھی مصر ہیں کہ اس کامیڈی سرکس کو جمہوریت کہا اور سمجھا جائے تو بھائی! یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی غلیظ ترین زہریلے پانی کی بوتل پر”آب زم زم“ کا لیبل لگادے لیکن کب تک؟ یہ ڈرامے اور نوٹنکیاں کب تک؟
ادھر قابل ترین،ذہین ترین، محنتی ترین جہانگیر ترین کی زیر قیادت ایک نیا سیاسی گروپ تشکیل و تکمیل کے مراحل سے گزررہا ہے تو اسے جگتیں مارنے کی بجائے نیک ترین سیاسی شگون سمجھیں لیکن بہتر ہوتا یہ عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہوجاتے کہ…”نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں“۔ پرویز مشرف کا ہاتھ ہی تھام لیتے اور اگر یہ ممکن نہیں تو عمران کے ساتھ انتخابی اتحاد کی بات کریں کہ شخصیت پرستی کے میلے گندے آسمان پر سولو فلائٹ ممکن نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بدی تو اپنے اپنے گروہ بنالیتی ہے…اچھائی میں اتحاد دکھائی نہیں دیتا ورنہ عمران خان+جہانگیر ترین+میاں عامر محمود+میاں اظہر اور ان جیسے دوسرے اکٹھے ہوجائیں تو شاید عوام سبھی خرکاروں کے چنگل سے نجات پاسکیں۔ عمران خان کی دیانت پر توبحث کی بھی گنجائش نہیں کمال یہ کہ میاں اظہر، میاں عامر محمود اور اسحق خاکوانی جیسے لوگ ا قتدار میں رہ کر بھی بیداغ ہیں تو کیا یہ کسی معجزے سے کم ہے؟ہمیں صرف دیانت ہی نہیں دیانت اور اہلیت کے امتزاج کی ضرورت ہے اور بیشک اس ملک میں ا یسوں کی بہتات نہ سہی لیکن قحط بھی نہیں ہے بشرطیکہ عوام بھی آمادہ ہوں۔ مختصراً یہ کہ جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کو اصغر خانی سولو فلائٹ سے بچنا چاہئے اور اب یہ آخری خبر کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ بچیوں کے بال شادی کے انتظار میں سفید ہورہے ہیں تو یقین جانیئے کہ میرے نزدیک اس خبر میں بھی کوئی خبریت نہیں کیونکہ جس معاشرہ کی معیشت نے اس کا خون سفید کردیا ہو وہاں شادی کے انتظار میں لڑکیوں کے بال سفید ہو جانا ”نارمل“ بھی ہے اور”نیچرل“ بھی۔
اور اب آخر یہ صرف اتنی سی گزارش کہ زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں…زندگی اور موت سگی بہنیں ہیں سو ہوسکے تو زندگی سے چند لمحے نکال کر افتخار نسیم اور عدیم ہاشمی کے لئے دعا فرمائیے کہ ایسے لوگ کسی بھی معاشرہ کے ماتھے کا اصل جھومر ہوتے ہیں، یہ علیحدہ بات کہ ہمارے اجتماعی ماتھے پر مکروہ ترین نقلی جھومر جھول رہے ہیں جنہیں بالآخر رخصت ہونا ہوگا……اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس معاشرہ کو رخصت ہونا ہوگا!
 
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.