Javed Iqbal
کوئی ایک موضوع بھی اس قابل نہیں کہ پورے کا پورا کالم اس کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اس لئے ایک سے زیادہ موضوعات پر بات چلاتے ہیں۔ سب سے پہلے دو ٹی وی اشتہارات…
ایک اشتہار میں عبادت گزار ماں دعائیں پڑھ کر موبائل فون کے ذریعہ بیرون ملک زیر تعلیم بیٹی کو ”پھونکیں“ مار مار کر اس کی شمپو زدہ زلفوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ دعائیں قبول فرمانے والے مالک و خالق و رازق نے فون ایجاد کرنے والے اس شخص بارے کیا سوچ رکھا ہو گا جس نے اربوں انسانوں کے لئے اتنی زبردست سہولت اور آسانی مہیا کر دی کہ ابھی کل کی بات ہے جب بیرون ملک کال کرنا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ کتنے بھلے ہیں وہ انسان جو انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں کہ اصل میں تو یہی ”اشرف المخلوقات“ کہلانے کے مستحق ہیں۔ باقی صرف طفیلئے اور چھان بورا۔ وہ موبائل فون اور ہم پھونکیں ”ایجاد“ کرتے ہیں۔
دوسرا اشتہار دانش سکولوں کے بارے میں ہے حالانکہ دانش کا تعلق سکولوں کالجوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ایک انگوٹھا چھاپ بھی دانش مند ہو سکتا ہے تو دوسری طرف کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص دانش سے یکسر محروم بھی ہو سکتا ہے۔ دانش اور تعلیم دو علیحدہ باتیں ہیں لیکن خیر یہ ایک اور موضوع ہے۔ مجھے تو صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ دانش سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی ”غریبی“ کو نہ اس طرح ٹی وی پر اچھالا جائے اور نہ ہی اس طرح فوکس کیا جائے کہ دانش سکول اور غربت لازم و ملزوم دکھائی دینے لگیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سکول غربت کی علامت بن کر اپنے طالب علموں کے ساتھ اس طرح چپک جائے کہ یہ بڑے ہو کر اپنے سکول کا نام لیتے ہوئے شرمائیں اور اپنے سکول کو اس طرح چھپاتے پھریں جیسے موچی، دھوبی، تیلی، نائی اور میراثی اپنے ذاتیں چھپانے یا بدلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ قطعاً ضروری نہیں کہ غریب بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے ان کی تذلیل اور توہین کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ”غریب بچوں“ کی بجائے ”محدود وسائل والے ذہین بچوں“ یا اس ٹائپ کے کسی اور جملے سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔
اب ایک جھلک حکومتی بلیک میلنگ کی۔ میں گاڑیوں کے ٹوکن ہر سال انتہائی ذمہ داری کے ساتھ عین وقت پر ادا کر دیتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اکثریت نہ اس کام کو سنجیدگی سے لیتی ہے نہ اس کی پرواہ کرتی ہے لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس ایکسپائر ہو جائے تو میں اس کی ری نیول تک ڈرائیونگ ہی ترک کر دیتا ہوں۔ بہر حال ذرا غور فرمایئے اس حکومتی غنڈہ گردی پر کہ جس گاڑی کا پچھلے سال 12700ادا کیا اس سال 17200ادا کرنا پڑا یعنی ایک سال میں 4500روپے کا اضافہ۔ جس گاڑی کا ٹوکن پچھلے برس 6900تھا امسال 8250ادا کرنا پڑا اور جس کا 1350تھا وہ اس سال بڑھا کر 2025کر دیا گیا ہے۔ واقعی ”رزق حرام“ والے ”رزق حلال“ کے مسائل سمجھ ہی نہیں سکتے، یہ چوروں کی بارات ہے جس کے دولہے ڈکیت ہوتے ہیں لیکن کیا کریں کہ اس عمر میں ہجرت بھی ممکن نہیں۔
آخری بات دراصل میاں نواز شریف سے اک اپیل ہے کہ ”جیسے ججوں کو بحال کرایا“ کی تکرار بند کر دیں تو بہتر ہے۔ اس سے لوگوں میں کوئی مثبت پیغام نہیں جا رہا ہے کہ ”بحال“ کرانے والا تو محسن ہوتا ہے اور بحال ہونے والا اس کا ممنون … عدلیہ کی بحالی دراصل چند ججوں کی بحالی نہیں عدلیہ کے وقار اور قوت کی بحالی تھی اور اس بحالی کا اکلوتا ہیرو وہ شخص ہے جس نے جرنیلوں کے جھرمٹ میں جراتِ انکار کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد باری ہے وکلاء، میڈیا اور عوام کی اس لئے بہتر ہو گا کہ ججوں کی بحالی کا کریڈٹ لینے سے اجتناب فرمایا جائے کہ اس طرح کی بیان بازی عدلیہ کے بھی شایان شان نہیں اور لوگوں کو بھی غلط Messageجا رہا ہے۔ آگے آپ کی مرضی!
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.