Javed Iqbal

“GANGLAND DEMOCRACY”- قسط نمبر 1

چوراہا-حسن نثار
بات بنیادی طور پر سو فیصد درست ہے اور یہی ہماری بربادی کااصل سبب بھی اور اسی وجہ سے مجھے عوام پر ”غصہ“ بھی آتا ہے کہ اگر عوام خود ہی اپنے بھیانک ترین استحصالیوں کے عشق میں غرق رہیں گے تو ان کے استحصال کا منحوس باب بند کیسے ہوگا۔ میں تو تھک ہار کر یہاں تک پسپائی اختیار کرچکا ہوں کہ لوگو! اگرشخصیت پرستی کے ”شرک“ سے باز نہیں آنا تو اس میں اتنی ترمیم تو کرلو کہ جب تمہارا کوئی ”دیوتا“ کسی جانے پہچانے کھمبے، ڈھگے یا لچے لفنگے کو ”ٹکٹ“ عطا فرماتا ہے تو اس کا بائیکاٹ کرکے تو اپنے اپنے دیوتاؤں کو یہ پیغام دو کہ ”حضور! آپ کا عشق اپنی جگہ سلامت تا قیامت لیکن ٹکٹ تو کسی چج اور ڈھنگ کے آدمی کو دیں“ لیکن افسوس عاشق مزا ج عوام اتنا بھی نہیں کرتے اور ہم جیسے لوگ اس بات پرکڑھتے رہتے ہیں کہ غیوروں باشعوروں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں ما ر مار کر خود کو معذور کیوں کرلیا؟ عجیب کنفیوژن کا شکار کہ خود اپنے آپ کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ کا جڑت اور ہمدردی جائز بھی ہے یا نہیں؟ عوام کی بھاری ترین اکثریت ”جون ایلیا“ بنی ہوئی ہے جس نے کہا تھا…
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
اسی لئے توکالم کے آغاز میں ہی اعتراف کرلیا کہ بھائی! ہم ہی غلط ہیں اور بنیادی طور پر انہی یعنی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بات ہی درست ہے جنہوں نے فرمایا کہ… ”سیاستدانوں کو عوام منتخب کرتے ہیں انہیں کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں“ تو پھر چیخنے، چلانے اور احتجاج کرنے کی کیا تک ہے؟ اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کے لئے ہمدردی کیسی بلکہ ایسی سچوئشن میں تو ان کی اذیتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان سے کہنا چاہئے:
”ہور چوپو… ہور چوپو اور ووٹ دوان کو جو خود اربوں کی پہاڑیاں لگاتے ہیں۔ تمہیں ایک وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو پاکستان میں اپنے سادہ سے علاج پر بھی آمادہ ہو جبکہ ”مستانے“ دوائی کے لئے ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مر جاتے ہیں۔“
ذرا سوچو تو سہی چند سال پہلے تک لوٹ ما ر کے سکینڈلز لاکھوں کروڑوں کے گرد گھومتے تھے۔ اب اربوں کھربوں سے کم کا کوئی سکینڈل ہی سامنے نہیں آرہا اور یہ سب کون ہیں؟ وہی جن کے بارے وزیراعظم نے کہا… ”سیاستدانوں کو عوام منتخب کرتے ہیں انہیں کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔“واہ لوگو واہ!
تم بھی بہت عجیب ہو اتنے عجیب ہو کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
ادھرہم جیسے ”خدائی فوجدار“ خواہ مخواہ کے ”ٹھیکیدار“ جو اشراف اور اجلاف دونوں طرف کی گالیاں کھا کے بھی نہ بے مزہ ہو رہے ہیں نہ اس نام نہاد جہاد سے باز آ رہے ہیں۔
میں اپنی مکروہ سیاست کو اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کوئی اپنے ہاتھ کی پشت کو جانتا ہے لیکن بھارت کے سینئر ترین اور جینئس بنگالی بیوروکریٹ ملائے کرشنا دھر کی شہکار کتاب “A story of gangland democracy” نے تو میرے ہوش اڑا کررکھ دیئے۔ مترجم قیصر سلیم نے بھی کمال کردیا ہے۔ سب سے پہلے مصنف ملائے کرشنادھر (Maloy Krishna Dhar) بارے بنیادی معلومات… کرشنا نے کلکتہ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ 1964 میں انڈین پولیس سروس جوائن کرنے کے بعد انہیں انٹیلی جنس بیورو بھیج دیا گیا۔ یہاں انہیں ہندوستان کی سیاست، شورش، جوابی دہشت گردی، جوابی جاسوسی اور قوم کے زمینی حقائق کا گہرا شعور حاصل کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا ہوگیا۔ یہ کتاب ہندوستان کے سیاسی واقعات میں داخلہ کا سنسنی خیز سفر ہے جو ہندوستان کی انتخابی جمہوریت کے پیچھے ہر بدنما سچائی کو ننگا کردیتا ہے (اسے پڑھ کر پاکستان کی انتخابی جمہوریت کی پہچان بھی
بہت آسان ہو جاتی ہے) اس عظیم تحریر سے اقتباسات بلکہ ”ٹوٹے“ ملاحظہ فرمایئے۔
”راج کرشنا سے اس رات کی ملاقات مختلف تھی۔ پارلیمینٹ یعنی قانون ساز ادارے جہاں بہت سے قانون توڑنے والے قانون سازی کے لئے جمع ہوتے ہیں، کے امیدوار کے لئے مجھے افلاطون کے مکالمے کو اپنانا پڑا۔ راج کرشنا کو بہار صوبہ کی جنگ کے لئے تیار کرنامقدونیہ کے سکندر کو تیار کرنے سے کم مشکل کام نہ تھا“
”تمہارے صوبہ میں کون کون سی خاص ذاتیں ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”برہمن، راجپوت، کائستھ، دلت، مسلمان“
”1991اور 2001کی مردم شماری کے اعداد پر نظر ڈالو۔ ذاتوں کا الگ الگ حساب رکھو۔ ہر حلقہ انتخاب میں ووٹروں کے انداز اور ذات برادری کے لیڈروں، ان کی طاقت اور کمزوریوں کو بھی درج کرنا ہوگا۔“
”فکر مت کرو۔ میری بیٹی کمپیوٹر کی ماہر ہے لیکن نکسلیوں کے ساتھ کیا کروں؟“ راج کرشنا نے پوچھا۔
”نکسلئے زیادہ تر نچلی ذات کے پسماندہ اور دلت وغیرہ ہیں۔ چند ایک نکسل لیڈروں سے رابطہ کرو۔“
”کس لئے؟“
”انہیں پیسے دو، شہد دو، کھینی (تمباکو) دو صرف چونا مت لگاؤ۔“
”میں سمجھا نہیں۔“
”انہیں ذاتی استعمال اور اسلحہ خریدنے کے لئے رقم دو تاکہ وہ برہمنوں، راجپوتوں اور بھومی ہاروں سے لڑیں۔“
”یہ تو ان کی تحریک کو طاقتور بنا دے گی۔“
”ہاں اسی طرح کی مدد اونچی ذات والوں کی بھی کرو۔ ان کی پرائیویٹ آرمی کو سپورٹ کرو۔“
”پھر تو بڑی خون ریزی ہوگی۔“
”تو کیا ہوا؟ جب مصیبت میں ہوں گے تب ہی تمہارے پاس آئیں گے۔ DGپولیس اور DG انٹیلی جنس کو طلب کرکے کہو کہ نکسلیوں اور پرائیویٹ آرمی کے پیچھے پڑ جائیں۔ ہونے دو افراتفری، سیاست میں تم اسی وقت ترقی کرسکتے ہو جب افراتفری ہوگی۔ لوگوں کو کبھی یہ سوچنے کا موقعہ نہ دو کہ وہ تمہارے بغیر عافیت سے ہیں۔ خودکواس طرح پیش کرو جیسے تم مسیحا ہو۔“
”مسلمانوں کے بارے کیا کہتے ہو؟“ راج کرشنا نے پوچھا۔
”اچھا سوال ہے۔ انہیں پارٹی میں اچھی جگہ اور کچھ ٹکٹ بھی دو۔ مسلمانوں کے لئے نشستیں مخصوص کرنے کا وعدہ لٹکائے رکھو۔“
”ٹھیکوں اور فنڈز مخصوص کرنے اور استعمال کرنے کے بارے؟“
”تم دولت مند آدمی ہو۔ کسی بھی ڈیل میں سات پرسنٹ سے زیادہ نہ لینا۔ اپنے حریف کی پالیسی کے خلاف چلنا۔ سڑکوں، بجلی، سیلاب پر کنٹرول، روزگار پر توجہ دینا، تم بہار میں چھوٹی موٹی چوری کے لئے مقدر نہیں کئے گئے۔ لوگوں کو ایک ہاتھ سے لوٹو اوردوسرے ہاتھ سے خیرات دو۔“ (جاری ہے

 

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.