Javed Iqbal

متحدہ، پی پی، دیگر اور کراچی کا”قبضہ“...چوراہا…حسن نثار
پیپلز پارٹی تو ایم کیو ایم کے لئے محاورے والا کمبل بن گئی ہے یعنی وہی بات کہ میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن یہ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ پنجابی زبان میں اسے”جن جپھا“ بھی کہتے ہیں۔ اس صورتحال سے دھیان”پیر تسمہ پا“ اور”آکٹوپس“ کی طرف بھی جاتا ہے جن کی ”جکڑ“ اور ”پکڑ“ بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔ ایسے لوگ ایم کیو ایم کو”شوقینئی اقتدار “ کے طعنے دیتے تھے…کم از کم انہیں تو اب سمجھ آگئی ہوگی کہ ایم کیو ایم کے لئے اقتدار میں شرکت و شراکت کیوں ضروری ہے کہ جب تک یہ کسی کے ساتھ ہوں تو فرشتے ہیں اور”نائن زیرو“ سیاسی حوالوں سے مقدس مقام لیکن جونہی یہ لوگ خوبصورت موڑ دے کر کسی کا ساتھ چھوڑنا چاہئیں تو شیطان سے کم نہیں،الزامات اور زہریلے پروپیگنڈے کی انتہا اور ”نائن زیرو“ ہر برائی کی جڑ … اوپر سے ذوالفقار مرزے چھوڑ دئیے جاتے ہیں جو بدترین انداز میں پست ترین خیالات کی قے کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان کا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں تھا۔ مہذب گھرانوں میں جو چند اصول آغاز میں ہی مختلف طریقوں سے بچوں میں”انجیکٹ“ کردئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہوتا ہے کہ جن کے ساتھ کچھ عرصہ کا ساتھ بھی رہا ہو، خاندانی لوگ ہمیشہ اس کا لحاظ کرتے ہیں اور تعلق ٹوٹ بھی جائے تو پرانے تعلق کا احترام پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن یہاں تو تعلق کا کفن بھی میلا نہ ہوا کہ تکلف اور تمیز برطرف…ایسی بدزبانی پر اترآئے کہ پوری پارٹی کو ڈس اون کرنا پڑا۔
کراچی کا قصہ بہت سادہ ہے لیکن جتنا سادہ اتنا ہی پیچیدہ بھی کہ دراصل کراچی کی اہمیت ہی اس کی اذیت بن گئی ہے کہ اس کے معاملہ میں ہر کوئی سوائے ایم کیو ایم اپنی”جمہوری حدود“ سے تجاوز کرنے پر تلا رہتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہئے جو عین منطقی ہے اور جمہوری بھی کہ جس کی جتنی”نمائندگی“ بنتی ہے اسے اس شہر کی اتنی ہی ذمہ داری دیدی جائے لیکن نہیں کہ ان کی ہوس انہیں مختلف حربے استعمال کرکے اپنے حصے بڑھانے پر اکساتی ہے جس کے نتیجہ میں کراچی آگ اور خون کے غسل میں مصروف ہوجاتا ہے ۔متحدہ پورے ملک میں دھیرج سے پھیل رہی ہے لیکن کراچی اس کا قلعہ ہے اور جو کوئی اس قلعہ میں نقب لگانے،جعلسازی سے قبضہ کرنے کی غیر جمہوری کوشش کرے گا وہ اس کا دوست نہیں بدترین دشمن ہوگا۔
یہ تو تھیں ”کراچی کیس“ یا” کراچی کرائسس“ کے پس منظر کی کچھ جھلکیاں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوری طور پر کیا کیا جائے؟سب سے پہلے تو یہ کہ پیپلز پارٹی کی قیادت زمینی حقائق کے ساتھ ٹمپرنگ کرنے کی بجائے انہیں خوشدلی سے تسلیم کرتے ہوئے مختلف قسم کے منفی حربوں اور چلاکیوں سے اجتناب کرے۔ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں جو ہے اسی پر قناعت کرتے ہوئے” توسیع پسندی“ سے بچے اور اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو صرف جائز اور جمہوری حربوں تک محدود رہے کہ ناجائز قبضہ تو کسی کمزور کو بھی ہضم نہیں ہوتا، ایم کیو ایم تو اس ملک کی مین سٹریم پارٹیوں میں سے ایک ہے جو کسی قربانی سے کبھی گریزاں نہیں رہی۔
دوسری بات یہ کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ کی قیادتیں اپنے ذوالفقار مرزا ایسے ہو نہیں سکتے یقینا کوئی ذہنی یا جسمانی عارضہ ہوگا جس کی طرف انصار برنی نے بھی اشارہ کیا۔ کسی بھی قسم کے ڈاکٹرکے ساتھ چند نشستیں اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ”ایکشن ری پلے“ کی نوبت نہ آئے۔ ایسا بھی کیا غصہ کہ پورے کے پورے مہاجروں کو”بھوکے ننگے“ کہہ کر انہیں بھی لپیٹ لیا گیا حالانکہ یہاں تو سب ہی مہاجر سمجھو کہ”اصلی مقامی“ تو برہمن ،کھتری، دلت، میلچھ، شودر تھے اور کول، دراوڑ وغیرہ جو ہندوستان کی ابتدائی قومیں ہیں۔ باقی تو سب ”بھوکے ننگے“ مہاجر ہی تھے۔ یہ سب تورانی، منگول، مرزے، یونانی، غزنوی، غوری، خلجی، تغلق، لودھی، ترک، سادات، پٹھان، مغل، سوری، انگریز سب”مہاجر “ تھے…”بھوکے ننگے“ جو سونے کی چڑیا کے سنہرے روپہلے پروں کو نوچتے آتے رہے۔ اردو سپیکنگ مہاجروں سے لے کرمرزاؤں کی”ہجرت“ میں سالوں کے فرق و فاصلہ کے علاوہ فرق ہی کیا ہے؟ مرزے بھی مہاجر اور مہاجر بھی مہاجر کہ کچھ چند سو سال پہلے مہاجر ہوئے، کچھ63سال پہلے بقول حضرت شور علیگ مرحوم ……
جھلستے ہوئے رہگزاروں کی خاطر
مہکتے ہوئے گلستان چھوڑ آئے
یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ شرح خونداگی بھی انہی مہاجروں میں باعزت تھی جنہوں نے دیگر قربانیوں کے ساتھ ساتھ اس نوزائیدہ ملک کا نظام بھی سنبھالا … بڑے بڑے رؤسا کراچی میں غلیظ کوارٹرز میں بسرام کرتے رہے اور کون کس کا لیڈر ہے؟ اس کا فیصلہ بھی کسی مغلوب الغضب غیرمنطفی مرزا صاحب نے نہیں… وہاں کے ووٹرز نے کرنا ہے۔ آفاق سے وفاق کی محبت اپنی جگہ لیکن ووٹر کا میثاق کسی اور کے ساتھ اٹوٹ ہے۔ایسے کچھ کچھ فیصلوں پر کچھ کچھ نظرثانی کریں۔ کچھ فیصلے زرداری صاحب ریورس کرلیں اور کچھ فیصلے قائد تحریک ریورس کرلیں تو شہر کو امن اور شہریوں کو سکون نصیب ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے سیاستدان نہیں سٹیٹس مین بن کر سوچنا ہوگا۔میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ پیپلز پارٹی متحدہ کے لئے”کمبل“ ہوگئی ہے تو زندگی بالخصوص سیاست فقط”بلیک اینڈ وائٹ“ نہیں اس کے بے شمار شیڈز ہوتے ہیں۔ متحدہ نے اگر حکومت میں واپس نہ جانے کی ضد پکڑ لی ہے تو بھلے اس پر قائم رہے لیکن جزوی واپسی میں کیا قباحت؟ پیپلزپارٹی اگر عشرت العباد کے”عشق “ میں اس بری طرح متبلا ہے اور ان کی واپسی سے کراچی کے لئے بہتری کی صورت نکل سکتی ہے تو ڈاکٹر عشرت العباد کے دوبارہ گورنر بننے میں کیا نقصان؟ واپسی کا فیصلہ ریورس نہ کریں لیکن جزوی واپسی بطور ٹوکن میں کیا برائی، جرم یا گناہ ہے ؟…اسی طرح زرداری صاحب بھی اگر کچھ کاموں یا وارداتوں پر نظر ثانی کرلیں تو مکمل شفا نہ سہی…کچھ نہ کچھ افاقہ تو ضرور ہوگا کہ جنگ کی طرح امن کی تالی بھی دو ہاتھوں سے ہی بجتی ہے اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ عالمی جنگوں کا اختتام بھی مذاکرات کی میزوں پر ہی ہوتا ہے۔
اورہاں کیا یہ سو فیصد سچ نہیں کہ ایم کیو ایم کے بے شمار بظاہر ”اردو سپیکنگ “ اور یجنلی پٹھان لوگ ہیں جسے یقین نہ آئے برادرم”بابر غوری“ اور انیس” قائم خوانی“ سے پوچھ سمجھ لے۔ مختصراً یہ کہ اہل کراچی کے مینڈیٹ کا مکمل احترام ہی اس شہر کو مکمل طور پر نارمل کرسکتا ہے۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.