Javed Iqbal

یوں تو”لاکھوں میں ایک“ محض ایک محاورہ ہے لیکن زندگی میں کچھ لوگ واقعی”لاکھوں میں ایک“ ہوتے ہیں جیسے ڈاکٹر جاوید سبزواری جو کہتے ہیں کہ جسے پیسے کا شوق ہو وہ کوئی اور پیشہ اختیار کرلے کیونکہ اس پیشے میں تو پیسہ آخری ترجیح ہونا چاہئے کیونکہ پیسہ تو مرغ چھولے، نہاری اور حلیم بیچ کر بھی بہت کمایاجاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہی نہیں دن رات کرتے بھی ہیں۔ معاشیات سے ماورا یہ شخص بہت ہی عجیب ہے جو ایک ایک مریض پر اتنا وقت لگادیتا ہے کہ خود مریض گھبرا جائے جیسے میں ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے سے گریز کرتا ہوں۔ آج کل کون سا ڈاکٹر ہے جو ایک ایک مریض پر ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ غارت کردے۔ ڈاکٹر صاحب کارڈیولوجسٹ ہیں یعنی دل کے ڈاکٹر اور جب سے میرے دل نے میرے ساتھ دل لگی شروع کی ہے میں ڈاکٹر جاوید سبزواری کا مریض ہوں لیکن ڈھیٹ اتنا ہوں کہ پرابلم کے باوجود مہینوں ان کے کلینک نہیں جاتا کہ ان کا کلینکل چیک اپ تھکا دینے والا ہے کہ یہ پاکیزہ شخص مریض دیکھتے ہوئے دراصل عبادت کررہا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں ٹخنوں پر سوج بڑھتی گئی اور میں اسے حسب عادت نظر انداز کرتا رہا۔ مسئلہ جب اک حد سے بڑھ گیا تو اہلیہ نے کہرام مچادیا تو بیماری نہیں… بیوی کے خوف سے ڈاکٹر جاوید کے پاس جاپہنچا۔ ڈاکٹر صاحب حسب عادت، حسب معمول چیک اپ میں محو ہوگئے، سوا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ٹیسٹوں کی اک لمبی فہرست مجھے تھماتے ہوئے فرمایا…
”کسی جینوئن لیبارٹری سے یہ سارے ٹیسٹ کرانے کے بعد رپورٹ لے کر آئیں تو آگے چلیں گے“۔
پوچھا”لیبارٹری بھی آپ ہی تجویز فرمادیں تو کیا برائی ہے“؟ بغیر پروں والا فرشتہ مسکراتے ہوئے بولا … ”شوکت خانم یا آغا خان“ میں ایک دو دن بعد اپائنٹمنٹ لے کر شوکت خانم پہنچ گیا۔ تین دن کے بعد”شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر“ سے چودہ صفحات پر مشتمل رپورٹ موصول ہوئی کہ ڈاکٹر جاوید نے شاید سوائے”ایڈز“ کے کوئی ٹیسٹ چھوڑا ہی نہ تھا۔
اس تمہید کے بعد اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں… میرے بدن کے بارے میں چودہ صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی لیب رپورٹ میرے سامنے ہے۔ ہربات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہے۔ جسم کا کون سا”پرزہ“ یا”حصہ“ کس طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہے؟ جگر کیا کہتا ہے؟ یورک ایسڈ کیا کہہ رہا ہے؟ کولیسٹرول اچھا کتنا اچھا اور برا کتنا برا ہے؟ گردے تو کوئی غنڈہ گردی نہیں کررہے؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ…یعنی میرے بارے میں اک ٹاپ موسٹ اور مہنگی ترین لیبارٹری کی مفصل رپورٹ میرے سامنے ہے لیکن میری اصل اوقات، میری حقیقی حیثیت صرف اتنی ہے کہ میں خود اپنی ذات، اپنے جسم بارے اک رپورٹ کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ مجھے کسی ”ایکسپرٹ“ کی ضرورت ہے جو مجھے میرے بارے لکھی گئی اس رپورٹ کو عام فہم زبان میں مجھے سمجھائے کہ میر ا مسئلہ کیا ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟
ساری نام نہاد دانش وری… خوبصورت شاعری … ہزاروں کتابوں پرمشتمل میری لائبریری، اچھا سکول، اچھا کالج، اچھی یونیورسٹی، انتہائی پڑھا لکھا خاندان، بے شمار ملکوں کی خاموش سیاحت… سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے اور میں جاہل خود نہیں جان سکتاکہ مسئلہ کیا ہے۔
میں تو اس قابل بھی نہیں کہ خود اپنے بارے میں تیارشدہ طبی رپورٹ کو ہی ٹھیک سے سمجھ سکوں۔یہ کون علمے فضلے، دانش ور اور دیدہ ور ہیں جن کے پاس ہر مسئلہ کا حل موجود ہے؟ انسان کو تو یہ جاننے کے لئے بھی کسی اور کی مدد درکار ہوگی کہ اس کی پشت یا گردن کے پیچھے کوئی تل ہے، سر کے اوپر کوئی برتھ مارک ہے کہ نہیں؟ اس کی خبر بھی ادھیڑ عمری میں بالوں کے جھڑجانے پر ہی ملتی ہے۔
عرض کرنے کا مقصدیہ کہ اگرانسان خود اپنے جسم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا حتی ٰ کہ لیبارٹری کی تفصیلی رپورٹ کو سمجھنے میں بھی پڑھا لکھا ہونے کے باوجود بے بس ہے اور یہ جاننے کے لئے اسے کسی”ایکسپرٹ“ کی ضرورت ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ڈی کم سے کم 40ہونا چاہئے جبکہ تمہارا صرف8ہے تو لوگو! باقی کیا رہ جاتا ہے؟
میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنے اپنے فزیکل سیلف کے بارے اتنے بے خبر ہیں تو ہم میں سے کتنے اپنے روحانی Self، جذباتی Self، نفسیاتیSelfوغیرہ کے بارے کچھ جانتے ہوں گے جو جسمانیSelfسے کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہے”میری بکل دے وچ چور“ … نتیجہ؟
وہ جو اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا…وہ اور کچھ جاننے کا دعوی کیسے کرسکتا ہے ؟یہ دنیا توکسی کھاتے میں ہی نہیں، کائناتوں کہکشاؤں کا اک بے شمار سا سلسلہ ہے جس کی بھول بھلیوں میں ہم کیا، ہماری جان کاریاں کیا؟ ہم کیا ہمارا علم کیا؟ حیثیت کیا؟اوقات کیا؟
سچ صرف اور صرف یہ جاننے کا نام ہے کہ ہم میں سے کوئی کچھ بھی نہیں جانتا۔
”بلھا! کیہ جاناں میں کون؟
نہ میں مومن وچ مستیاں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ ، نہ فرعون
بلھا! کیہ جاناں میں کون؟“
بس اگر کچھ بس میں ہے تو صرف جتنا شاہ حسین کہہ گئے یعنی…
”نی سیو! اسیں نیناں دے آکھے لگے
جینہاں پاک نگاہاں ہوئیاں کہیں نئیں جاندے ٹھگے
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی، کاگ نہ تھیندے بگے
شاہ حسین شہادت پائیں، جو مرن متراں دے آگے“
اور بابا فرید نے تو قصہ ہی تمام کردیا…
”اٹھ فریدا ستیا تری داڑھی آیا بور
اگا آگیا نیٹرے تے پچھارہ گیادور“
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.